ماہ صفر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں
ماہِ صفر اسلامی مہینوں میں دوسرامہینہ ہے، اس مہینے کو تاریخ اسلامی میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کیلئے ہولناک انتظامات کیئے جارہے تھے ۔
اسی ماہ صفر کی 26 تاریخ تھی، نبوت کوچو دھواں سال تھا، جمعرات کا دن سورج بلند ہونا شروع ہوا اور ادھر کفار مکہ بھی اپنی اپنی کوششوں میں مصروف ہوئے اور رحمت للعالمین ، مظلوموں کے ساتھی امن و سلامتی کی علامت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات پانے کے رستے تلاش کرنے لگے۔
یہی وہ دن ہے کہ جس دن سردارانِ قریش نے ایک میٹنگ بلائی جس میںاس امت کا فرعون ابوجہل بن ہشام قبیلہ بنومخزوم کے سرپرست ، جبیر بن مطعم بنی نوفل بن عبدمناف کے شیبہ بن ربیعہ اور اس کابھائی عتبہ بن ربیعہ اور سفیان بن حرب بنی عبدشمس بن مناف کے ،نضربن حارث بنی عبدالدار کے ، ابوالبختری بن ہشام اورزمعہ بن اسود اورحکیم بن حزام بنی اسد بن عبدالعزی کے ، نبیہ بن حجاج اورمنبہ بن حجاج بنی سہم کے اور امیہ بن خلف بنی جمح کے سردار بن کرسامنے آئے ، ان کی مزید سربراہی کیلئے ابلیس نے اپنی خدمات مفت پیش کیں ۔فیصلہ یہ ہواکہ نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنا، جس کیلئے قریش کے قبیلوں سے ایک ایک فرد چناگیاتاکہ اس خون میں سب شریک ہوں اور بنوعبدمناف(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلے کانام)بدلے میں کسی سے جنگ نہ کرسکے گا۔
ادھر اللہ علام الغیوب کی طرف سے جبریل امین آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حکم ہجرت لے کر آئے، ساتھ یہ بھی کہاکہ آج رات اپنے بستر پر نہ گزاریں۔ یہ 27صفر کا دن تھا کہ اسی رات قریش کے اکابر مجرمین نے اپناسارادن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مہم میں گزارا،جب رات ذراتاریک ہوئی تو یہ لوگ گھات لگاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھ گئے کہ آپ سوجائیں تو یہ لوگ آپ پر ٹوٹ پڑیں۔ بہرحال قریش اپنے منصوبے کے نفاذ کی انتہائی تیاری کے باوجود ناکامی سے دوچار ہوئے اور اس نازک ترین لمحہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا” تم میرے بستر پر لیٹ جاو اور میری یہ سبز حضرمی چادر اوڑھ کر سورہو، تمہیں ان سے کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی چادر اوڑھ کر سویاکرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے اور کفار کی صفیں چیریں،مٹی سے ایک مٹھی لی اور ان کی طرف اچھالی جس سے اللہ تعالی نے ان کی نگاہیں پکڑلیں اور و ہ آپ کو نہ دیکھ سکے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر کے گھر تشریف لے گئے اور پھر ان کے مکان کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے رات ہی رات یمن کا رخ کیا اور چند میل دورواقع ثورنامی پہاڑ پر ایک غار میں جاپہنچے، جسے بعد میں غارثورکے نام سے پہچاناگیا۔غار میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ بھی یہیں رات گزار تے عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ بڑے ذہین وفتین تھے رات چھاجانے کے بعد آپ کے پاس جاتے اور صبح اس حالت میں کرتے کہ مکہ والے سمجھتے کہ انہوں نے رات یہیں گزاری ہے اس طرح وہ کفار مکہ کی سازشیں آپ تک پہنچاتے۔
چوتھے دن بروز سومواریکم ربیع الاول 1ھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار سے آگے مدینہ کا سفر عبداللہ بن اریقط اللیثی کی رہنمائی میں کیا جوصحرائی اور بیابان راستوں کاماہر تھا اور ابھی قریش ہی کے دین پر تھا،لیکن قابل اطمینان بھی تھا ۔
٭صفر 2ھ اگست 623ءغزوہ ابوا ءیا ودان ....اس مہم میں ستر مہاجرین ہمراہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور مدینے میں حضرت سعد بن عبادہ کو اپنا قائم مقام مقرر کیا، مہم کا مقصد قریش کے ایک قافلے کی راہ روکنا تھا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ودان تک پہنچے لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا، اسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوضمرہ کے سردار وقت عمرو بن مخشی الضمری سے حلیفانہ معاہدہ کیا جس کی تحریر یہ تھی ”یہ بنو ضمرہ کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریر ہے ۔ یہ لوگ اپنے جان اور مال کے بارے میں مامون رہیںگے اور جو ان پر حملہ کرے گا اس کے خلاف ان کی مدد کی جائے گی ، الا یہ کہ یہ خود اللہ کے دین کے خلاف جنگ کریں۔ یہ معاہدہ اس وقت کے لئے ہے جب تک سمندر ان کو ترکرے (یعنی ہمیشہ کیلئے ) اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مد د کےلئے انہیں آوازدیں تو انہیں آناہوگا۔
یہ پہلی فوجی مہم تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود تشریف لے گئے تھے اور پندرہ دن مدینے سے باہر گزار کرواپس آئے ، اس مہم کے پرچم کا رنگ سفید تھا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ علمبردارتھے۔
٭ ماہ صفر 4ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عضل اور قارہ (قبیلوں کے نام)کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور ذکر کیا کہ ان کے اندر اسلام کا کچھ چرچاہے لہٰذا آپ ان کے ہمراہ کچھ لوگوں کو دین سکھانے اور قرآن پڑھانے کیلئے روانہ فرمادیں آپ نے دس افراد کو روانہ فرمایااور عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا حضرت عاصم بن ثابت کو ان کا امیر مقرر کیا۔ جب یہ لوگ رابغ اور جدہ کے درمیان قبیلہ ہذیل کے رجیع نامی ایک چشمے پر پہنچے تو ان پر عضل اورقارہ کے مذکورہ افراد نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کوچڑھادیااور بنولحیان کے کوئی ایک سوتیر انداز ان کے پیچھے لگ گئے، انہیں پکڑ لیا گیا اور انہیں امن کا وعدہ دینے لگے لیکن حضرت عاصم نے ان کی بات کا یقین نہ کیا اور اپنے رفقاءسمیت ان سے جنگ شروع کردی ، بالآخر تیروں کی بوچھاڑ میں سات افراد شہید ہوگئے اور تین باقی رہ گئے، اب دوبارہ بنولحیان نے اپناعہد وپیماں دہرایااس پر تینوں صحابہ کرام ان کے پاس آئے لیکن انہوں نے قابوپاتے ہی بد عہدی کی اور انہیں اپنی کمانوں کی تانت سے باندھ لیا اس پر تیسرے صحابی نے یہ کہتے ہوئے جانے سے انکار کردیا کہ یہ پہلی بدعہدی ہے جس پر انہوں نے انہیں قتل کردیا اور باقی دو صحابہ حضرت حبیب اور زید رضی اللہ عنہم کو مکہ لے جاکر بیچ دیا گیا ان دونوں نے بدر کے روز اہل مکہ کے سرداروں کو قتل کیا تھا۔
٭صفر 4ھ بئر معونہ یہ اس مہینے کادوسرا حادثہ المناک واقعہ تھا
جس کاخلاصہ یہ ہے کہ ابوبراءعامر بن مالک جوملاعب الاسنة یعنی نیزوں کاکھلاڑی کے لقب سے مشہور تھا، مدینہ خدمت نبوی میںحاظر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی، جو اس نے قبول تو نہ کی مگر دوری بھی اختیار نہیں کی ۔ اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ آپنے اصحاب کو دعوت دین کیلئے اہل نجد کے پاس بھیجیں تو مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آ پ کی دعوت قبول کرلیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ان سے خطرہ ہے۔ ابربراءنے کہاکہ آپ کے صحابہ میری پناہ میں ہوںگے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے70آدمیوں کو اس کے ہمراہ بھیجا، منذربن عمرو کو ان کا امیرمقررکیا۔ مئر معونہ پہنچ کر حرام بن ملحان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط دے کر عدواللہ عامر بن طفیل کے پاس روانہ کیا جس نے کچھ نہ دیکھااور ایک آدمی کوپیچھے سے اشارہ کردیاجس نے حضرت حرام کواس زورکا نیزہ ماراکہ آر پار ہوگیا اوران کے آخری الفاظ تھے ” اللہ اکبر! ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ “
اس کے بعد فوراہی اس سرکش عامر نے باقی صحابہ کرام پر حملہ کرنے کے لئے اپنے قبیلے کو آواز دی، مگر انہوں نے ابوبراءکی پناہ کے پیش نظر اس کی آواز پر کان نہ دھرے اس نے مایوس ہوکر بنو سلیم کو آوازدی اس کے تین قبیلوں عصیہ ، رعل ، اور ذکوان نے اس پر لبیک کہا اور جھٹ آکر ان صحابہ کرام کا محاصرہ کرلیا۔ جواباًصحابہ کرام نے بھی لڑائی کی مگر سب کے سب شہید ہوگئے ۔
فتح خیبرکے بعد کے کئی واقعات بھی اسی ماہ صفر میں پیش آئے جن میںسے:
٭ صفر 7 ھ حضرت جعفر اور ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہم کا حبشہ سے خیبر پہنچنا۔
٭صفر 7 ھ حضرت صفیہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی جس میں ان کی اسلام کے بعد آزادی، ان کا مہر قرارپائی۔
٭صفر 7 ھ سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھنی ہوئی بکری کا ہدیہ بھیجا جوکہ زہر آلود تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک ٹکڑاچبایااور نگلنے کی بجائے تھوک دیااور فرمایاکہ یہ ہڈی مجھے بتارہی ہے کہ اس میں زہر ملایاگیاہے ۔
٭صفر 7 ھ اہل فدک سے نصف پیداوار پرمصالحت ۔
٭صفر 7 ھ وادی القری تشریف لے گئے جوکہ ایک یہودی علاقہ تھاان کے ساتھ عرب بھی شامل ہوگئے، جب مسلمان وہاں اترے تو انہوں نے تیروں سے استقبال کیا، وہ پہلے ہی صف بندی کئے ہوئے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام ماراگیا، جس نے غنیمت غیبر سے ایک چادر چرائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”وہ چادر اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے ۔“اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی جو انہوں نے نہ مانی مبارزت ہوئی جس میں ان کے گیارہ آدمی مارے گئے، جب ایک ماراجاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اسلام کی دعوت دیتے ۔اس دن جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر دوبارہ یہودکے مقابلے میں چلے جاتے اسی طرح شام ہوگئی۔ دوسرے دن ابھی سورج نیزہ برابر بھی نہ ہواتھا کہ انہوں نے اپناتمام کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھیر کردیا۔
٭خیبر سے مدینہ واپسی بھی غالبا اسی صفر 7ھ کے آخر میں ہوئی۔
٭صفر 8ھ میں سریہ غالب بن عبداللہ پیش آیا
٭صفر9 ھ : سریہ قطبہ بن عامر پیش آیا۔
٭آخری فوجی مہم : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کی آخری اور ایک بڑی فوجی مہم کی تیاری اسی مہینے میں کرائی جس کا سپہ سالار حضرت اسامہ بن زید کو مقررکیااور حکم دیاکہ بلقاءکا علاقہ اور داروم کی فلسطینی زمین سواروں کے ذریعہ روندآو ۔
افسوس کہ آج مسلمان اپنی تاریخ بھلابیٹھے ہیں ۔
Bookmarks