یہ تحریر یہاں سے لی گئی
لنک
http://www.islamic-belief.net/q-a/عبادت/
رفع الیدین سے متعلق باہم مخالف روایات میں کوئی تطبیق ممکن ہے ؟
بہت سے مسائل میں صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا اختلاف تھا جو مدینہ سے منتقل ہونے پر مخلتف بلاد و امصآر میں پھیل گئے یہاں تک کہ سن ١٥٠ ہجری میں صحیح نماز کیا ہے ؟ کیا رفع الیدین کیا جائے یا نہ کیا جائے کی بحثوں نے علماء کو گھیر لیا اور تب سے اب تک اس پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں
امام مالک اور امام ابو حنیفہ رفع الیدین کے بغیر نماز کو صحیح سمجھتے تھے
امام احمد ، امام الشافعی، امام بخاری اس پر عمل ضروری سمجھتے تھے
احنآف متقدمین ترک رفع الیدین کے قائل ہیں بعض اس کو منسوخ عمل کہتے ہیں مالکیہ میں اس پر اختلاف ہے بعض کرتے ہیں بعض نہیں – دوسری طرف شوافع اور حنابلہ رفع الیدین کو ضروری سمجھتے ہیں اور غیر مقلدین بھی
ان دونوں موقف رکھنے والوں نے ایک دوسرے کے خلاف کتب لکھیں اس میں راویوں کی شامت آئی کیونکہ ان دونوں گروہوں میں رفع الیدین پر منسوخ اور غیر منسوخ کی بحث چھیڑ گئی
یہ اختلاف بہت قدیم ہے اس مسئلہ پر بہت سی کتب ہیں جو احناف اور غیر مقلدین نے لکھی ہیں دونوں میں اپنے مدعآ کی روایات ہیں اور ان کا تجزیہ نہیں کیا جاتا بس راوی دیکھا اور ضعیف کہہ دیا یا کوئی نقص نکال دیا – ایک عام قاری سخت خلجان میں مبتلا ہوتا ہے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
یہاں ان روایات کا علاقائی تجزیہ کیا گیا ہے تاکہ اختلاف کو سمجھا جا سکے اور مخالف و متضاد روایات میں تطبیق کی صورت دیکھی جائے
مدینہ میں ابن عمر رضی الله عنہ ، أبو حميد الساعدي رضی الله عنہ الأَنْصَارِيّ (توفي فِي آخر خلافة معاوية)، جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رضی الله عنہ ، أبو قتادة بن ربعي رضی الله عنہ ، مُحَمَّد بن مسلمة رضی الله عنہ رفع الیدین کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ یہ عمل وہاں ختم ہو گیا یہاں تک کہ امام مالک تک اس کو نہ کرتے تھے
ابن عمر رضی الله عنہ نے رفع الیدین رکوع میں کیا لیکن سجدوں میں نہیں کیا یہ صحیح بخاری کی روایت ہے لیکن ایک دوسری روایت جو مسند الحمیدی کی ہے اس میں ہے
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَلَا يَرْفَعُ وَلَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ
عبدالله بن عمر رضی الله عنه نے فرمایا میں نے رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کو دیکها که جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے هاته کندهوں تک اٹهاتے اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹهاتے تو رفع یدین نه کرتے اور نه سجدوں کے درمیان رفع یدین کرتے
یعنی ابن عمر رضی الله عنہ ہر نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے –
نوٹ : غیر مقلدین دعوی کرتے ہیں کہ مسند حمیدی کا یہ نسخہ ناقص ہے اس کے مقابلے پر برصغیر کا نسخہ لیا جائے جس میں ابن عمر کا رفع الیدین کا ذکر ہے – جبکہ مسند حمیدی کا یہ نسخہ عرب دنیا کا ہے اور برصغیر کا نسخہ کس طرح غیر ناقص نہیں اس کی کوئی خارجی دلیل نہیں ہے
موطآ امام محمد میں ہے
قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةِ افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُمَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ
مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ ، عبدالعزیز بن حکیم سے روایت هے وه کہتے هیں که میں نے عبدالله بن عمر رضی الله عنه کو دیکها که وه اپنے هاتهوں کو کانوں کے مقابل تک نماز کی پہلی تکبیر کے وقت اٹهاتے اور اس کے سوا کسی موقعه میں نه اٹهاتے تهے
محدثین کی ایک جماعت مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ کو ضعیف کہتی ہے لیکن امام محمد اس روایت کے ساتھ اور روایات بھی نقل کرتے ہیں جن میں دیگر اصحاب رسول کا صرف تکبیر تحریمہ پر رفع الیدین کا ذکر ہے گویا ان کے نزدیک یہ روایت حسن ہے اور اس طرح وہ اس سے دلیل لیتے ہیں
مصنف ابن ابی شیبه کی روایت أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنِ بنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ کی سند سے ہے کہ
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَا يَفْتَتِحُ
میں نے نہیں دیکھا کہ ابن عمر رفع الیدین کرتے ہوں سوائے نماز شروع کرنے کے
لگتا ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہ نے رفع الیدین کو ہر نماز میں نہیں کیا جیسا مسند الحمیدی میں ہے لیکن وہ اس کے قائل تھے کہ اس کو کیا جا سکتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے
امام بخاری نے کتاب قرة العينين برفع اليدين في الصلاة میں اس أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ کے قول ایک انتہائی عجیب توجیہ کی ہے لکھتے ہیں کہ وَرَوَى عَنْهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنَّهُ لَمْ يَحْفَظْ مِنِ ابْنِ عُمَرَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ ابْنُ عُمَرَ سَهَا كَبَعْضِ مَا يَسْهُو الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ فِي الشَّيْءِ بَعْدَ الشَّيْءِ اصحاب رسول سے بعض دفعہ نماز میں غلطی ہو جاتی تھی جس پر وہ سہو کرتے تھے لیکن ظاہر ہے جب یہ مجاہد نے دیکھا ہی نہیں تو امام بخاری کی یہ توجیہ نا قابل قبول ہے
محدثین جو رفع کے قائل تھے ان کے پاس اس کا کوئی جواز نہ تھا لہذا انہوں نے کہا
قَالَ الْبُخَارِيُّ: ” قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ حُصَيْنٍ إِنَّمَا هُوَ تَوَهُّمٌ مِنْهُ لَا أَصْلَ لَهُ
بخاری کہتے ہیں یحیی ابن معین نے کہا کی حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ حُصَيْنٍ ان کا وہم ہے اس میں اصل نہیں ہے
لیکن یہ دعوی محدثین کے اس گروہ کا ہے جو رفع الیدین کا قائل ہے اور اس کے مخالف محدثین میں یہ وہم نہیں ہے
امام بخاری حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ حُصَيْنٍ کے رد میں ایک اور قول پیش کرتے ہیں
وَالثَّلَاثِ أَلَا تَرَى أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَرْمِي مَنْ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ بِالْحَصَى فَكَيْفَ يَتْرُكُ ابْنُ عُمَرَ شَيْئًا يَأْمُرُ بِهِ غَيْرَهُ , وَقَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَهُ؟ .
اور تیسری بات کیا تم دیکھتے نہیں کہ ابن عمر اس کو کنکر مارتے جو رفع نہ کرتا تو اس کو وہ کیسے چھوڑ سکتے ہیں جبکہ وہ انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو کرتے دیکھا؟
اس قول کی سند ہے
مسند الحميدي – (ج 1 / ص 480)مسند عبد اللہ بن عمر
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِىُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَاقِدٍ يُحَدِّثُ عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا أَبْصَرَ رَجُلاً يُصَلِّى لاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ حَصَبَهُ حَتَّى يَرْفَعَ يَدَيْهِ.
بے شک عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب کسی شخص کو دیکھتے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے رفع الیدین نہیں کرتا تو اس کو کنکر مارتے۔
اگر اس سند کو دیکھیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ سند منقطع ہے اس میں زید بن واقد نے کہا ہے کہ نافع سے روایت کیا ہے جبکہ ان سے اس کا سماع نہیں ہے
مسند الشامییں طبرانی کی راویات کی سند میں ہے
حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ
یعنی زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ اور نافع کے بیچ مکحول ہیں جو مسند حمیدی کی روایت میں نہیں ہیں لہذا مسند حمیدی کی روایت منقطع ہے اور اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی
مکہ میں رفع الیدین نماز میں کیا جاتا تھا – وہاں عبد الله ابن زبیر کی روایت ہے جس کو البيهقي 2/ 73 نے أيوب السختياني، عن عطاء بن أبي رباح کی سند سے روایت کیا ہے جس میں رفع الیدین کا ذکر ہے
قال: صليتُ خلف عبد الله بن الزبير، فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، واذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع، فسألته فقال: صليت خلف أبي بكر الصديق رضي الله عنه فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع، وقال أبو بكر: صليت خلف رسول الله- صلى الله عليه وسلم -فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع.
اس روایت پر بیہقی کہتے ہیں رواته ثقات اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن ابن التركماني نے اس قول کا تعقب کیا اور واضح کیا ہے کہ اس کی سند میں محمد بن الفضل عارم ہے جو مختلط ہے .
شعَيب الأرنؤوط سنن ابو داود کی تعلیق میں کہتے ہیں
قلنا: ويؤيد رواية البيهقي ما أخرجه عبد الرزاق (2525) من طريق طاووس قال: رأيت عبد الله بن عمر وعبد الله بن عباس وعبد الله بن الزبير يرفعون أيديهم في الصلاة. وأخرج ابن أبي شيبة 1/ 235 عن عطاء مثله.
ہم کہتے ہیں اس روایت کی تائید ہوتی ہے عبد الرزاق کی روایت سے جسے طاووس کے طرق سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے ابن عمر اور ابن عباس اور ابن زبیر کو دیکھا نماز میں رفع کرتے ہوئے اس کو ابن ابی شیبه نے عطا سے اسی طرح بیان کیا ہے
شعیب نے جس مصنف عبد الرزاق کی جس روایت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ طَاوُسًا، وَهُوَ يُسْأَلُ عَنْ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: «رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ، وَعَبْدَ اللَّهِ، وَعَبْدَ اللَّهِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي الصَّلَاةِ» لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ
عبد الرزاق نے ابن جریج سے نقل کیا کہ ان کو حسن بن مسلم بْن يَنّاق المَكِّيّ نے خبر دی کہ انہوں نے طَاوُس سے سنا ان سے نماز میں رفع الیدین پر سوال ہوا تو انہوں نے کہا میں نے عبد الله بن عمر اور ابن عباس اور عبد الله ابن زبیر کو دیکھا نماز میں رفع الیدین کرتے ہوئے
Bookmarks