بعض قرآنی آیتوں کے درمیان ظاہری اختلاف کے متعلق ایک مناظرہ
شاگرد: "میں جب قرآن پڑھتا ہوں تو اس کی آیتوں کو دوسری بعض آیتوں کے ساتھ مقائسہ کرتا ہوں لیکن میںان کے درمیان تضاد پاتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے ؟کیا ممکن ہے کہ کلام خدا میں اختلاف پایا جائے؟"
استاد: "خدا کے کلام میں اختلاف ناممکن ہے اور قرآن کی تمام آیتوں کے درمیان کسی طرح کا تضاد نہیں پایا جاتا [133]
لہٰذا ہم خود سورہٴ نساء کی ۸۲ ویں آیت میں پڑھتے ہیں۔
"وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیہِ اخْتِلاَفًا کَثِیراً"[134]
"اگر قرآن غیر خدا کے پاس سے ہوتا تو وہ لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے"۔
یہ قرآن کی حقانیت کی ایک دلیل ہے کہ اس کی تمام آیتوں میں کسی طرح کا کوئی تضاد اور اختلاف نہیں پایا جاتا اور یہی اختلاف کا نہ پایا جانا اس کے معجزہ ہونے کی سند ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کسی بشر کی فکری صلاحیتوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔
شاگرد: "تو پھر میں کیوں بعض آیتوںکو پڑھتے وقت اس طرح کا احساس کرتا ہوں جب کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اس میں اختلاف ممکن نہیں ہے؟ "
استاد: "تم ان آیتوں کے ایک دونمونے بتاوٴجن میں تمہارے خیال میں تضاد اور اختلاف پایاجاتا ہے تاکہ ان پر غور وفکر کیا جا سکے اور بات واضح ہوجائے"۔
شاگرد: "مثال کے طور پر میں دو نمونے ذکر کرتا ہوں۔
۱۔قرآن نے بعض مقامات پر انسان کی قدر منزلت کو اتنا بڑھا یا ہے کہ اس نے کہا ہے:
"فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِین"[135]
"پس جب میں اسے برابر کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم لوگ سجدہ ریزہوجانا"۔
لیکن بعض آیتوں میں قرآن نے اس طرح انسانوں کے مقام کو پست بتایا ہے کہ جانوروں کو بھی ان سے بلند مقام دیا ہے جیسا کہ ہم سورہٴ انعام میں پڑھتے ہیں:
"وَلَقَدْ ذَرَاٴْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیرًا مِنْ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لاَیَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ اٴَعْیُنٌ لاَیُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَیَسْمَعُونَ بِہَا اٴُوْلَئِکَ کَالْاٴَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اٴَضَلُّ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْغَافِلُونَ"[136]
"اور بتحقیق ہم نے بہت سے جن وانس کے گروہوں کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو دل رکھتے ہیں مگر اس سے کچھ سمجھتے نہیں،یہ لوگ چوپائے بلکہ اس سے بھی بد تر ہیں اور وہی لوگ غافل ہیں"۔
استاد: "ان دونوں آیتوں کے درمیان کسی طرح کا کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ ان دونوں آیتوں نے انسانوں کو دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے،اچھے، بُرے ،جو لوگ اچھے ہیں وہ اتنے زیادہ مقرب بارگاہ ہیں کہ اللہ ان کے سامنے اپنے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیتا ہے مگر ان کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو جانوروں سے بھی بد تر ہیں اور عقل جیسی گراں بہا نعمت کی موجودگی میں چوپایوں جیسی حرکت کرتے ہیں"۔
لہٰذا اس بنا پر جو پہلی آیت میں انسانوں کی اتنی قدرومنزلت بیان کی گئی ہے وہ مثبت استعداد رکھنے والوں کی بات ہے،جو اپنی عقل کو صحیح طور سے کار فرما کرکے سعادت وبلند سے بلند ترین مقامات پر پہنچ جاتے ہیں ،اور دوسری آیت ان لوگوں سے متعلق ہے جو اپنے اندر موجود شہوتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں جو اپنے اندر اتنی ساری صلاحیتوں اور خصوصیتوں کے باوجود خود کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور چوپایوں کے طور طریقے اپنا لیتے ہیں"۔
شاگرد: "میں آپ کے قانع کنندہ بیان کا بہت شکر گزار ہوں اگر آپ اجازت دیں تو دوسرا نمونہ بھی عرض کروں؟"
استاد: '"کہو کوئی بات نہیں"۔
شاگرد: "سورہٴ نساء کی تیسری آیت میں ہم پڑھتے ہیں"۔
" فَانکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ اٴَلاَّ تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً "
"پس پاک عورتوں سے نکاح کرو،دوکے ساتھ تین کے ساتھ یا چار کے ساتھ لیکن اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ تم عدالت نہیں کر پاوٴگے تو ایک سے نکاح کرو"۔
اس آیت کے مطابق اسلام میں عدالت کی مراعات کرنے کی صورت میں ایک ساتھ چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے لیکن ہم اسی سورہٴ کی ۱۱۹ویں آیت میں پڑھتے ہیں۔
"وَلَنْ تَسْتَطِیعُوا اٴَنْ تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُم"[137]
"اور تم کبھی بھی عورتوں کے درمیان عدالت نہیں کر سکتے بھلے ہی تم کوشش ہی کیوں نہ کرو"۔
لہٰذا پہلی آیت کے مطابق کئی بیویاں رکھنا جائز ہے البتہ بشرط عدالت ،مگر دوسری آیت کے مطابق چونکہ متعدد بیویوں کے درمیان عدالت ممکن ہی نہیں ہے لہٰذا ان دونوں آیتوں کے درمیان ایک طرح کا اختلاف پایا جاتا ہے؟"
استاد: "اتفاق سے یہی بات امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں منکرین خدا ،جیسے ابن ابی العوجاء جیسے لوگوں کی جانب سے اٹھائی گئی تھی،ہشام بن حکم نے امام سے اس اعتراض کا جواب حاصل کیا اور ان اعتراض کرنے والوں کو اس کا جواب دیا[138]
وہ جواب یہ ہے۔
پہلی آیت میں عدالت سے مراد رفتار وکردار میں انصاف کرنا ہے یعنی تمام بیویوں کے حقوق برابر ہیں اورانسان سب سے ظاہرا ً ایک جیسا برتاوٴ کرے لیکن دوسری آیت میں عدالت سے مراد قلبی لگاوٴ اور محبت میں عدالت قائم کرنا ہے (جو نا ممکن سی بات ہے) لہٰذا ان دونوں آیتوں میں تضاد نہیں ہے اگر کوئی ظاہری طور سے اپنی باتوں اور اپنے کردار سے چار بیویوں کے درمیان عدالت قائم کر سکتا ہو لیکن محبت اور دلی لگاوٴ میں عدالت کی رعایت نہ کرسکےتو اس کے لئے چار بیویوں کا رکھنا جائز ہوگا"۔
شاگرد: "ہم ان دونوں آیتوں میں کیوں عدالت کے دومعنی مراد لیں جب کہ عدالت کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں؟"
استاد: "عربی قانون کے لحاظ سے اگر کسی معنی کے لئے قرینہ موجود ہو تو اس کے ظاہری معنی مراد نہ لیتے ہوئے دوسرے مجازی اور باطنی معنی مراد لے سکتے ہیں، اور ان دونوں آیتوں میں واضح شواہد موجود ہیں کہ پہلی آیت میں عدالت سے مراد ظاہر رفتار وکرادر اور دوسری میں باطنی ،جیسا کہ ظاہر آیت سے یہی بات واضح ہوتی ہے لیکن دوسری آیت میں جملے اس طرح ہیں۔
" فَلاَتَمِیلُوا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوہَا کَالْمُعَلَّقَةِ "[139]
"اپنے تمام میلان کو ایک ہی بیوی کی طرف متوجہ نہ کردو کہ اس کے نتیجے میں دوسری بیویوں کو یوں ہی بلا وجہ چھوڑ دوگے۔
اس جملہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس آیت میں جو یہ کہا گیا ہے کہ تم عورتوں کے درمیان عدالت نہیں قائم کرسکتے اس سے مراد وہ عدالت ہے جو قلبی لگاوٴ اور رجحانات میں ہوتی ہے اور ظاہرسی بات ہے کہ اس طرح کی عدالت ناممکن ہے یعنی کوئی شخص اگر چار بیویوں کا شوہر ہوگا تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ چاروں کوایک مقدارمیںچاہے اور ان سب سے برابر کی محبت کرے البتہ یہ ممکن ہے کہ وہ چاروں سے ایک جیسا سلوک کرے۔
لہٰذ اان دونوں آیتوں میں کوئی تضاد نہیں پایاجاتا۔
شاگرد: "میں آپ کے اس قانع کنندہ اور مدلل بیان سے مطمئن ہو گیا،آپ کا شکریہ"۔
کیونکہ ظاہر سی بات ہے اسلامی احکام صرف وہاں تک قابل نفاذ ہوتے ہیں جہاں تک انسان کا اختیار ہو اور عمل یا عدم عمل پر اسے قابو ہو جہاں تک محبت اور دلی تعلق کا سوال ہے تو یہ ایک اضطراری عمل ہے اور اس کا تعلق احساساتی پہلووٴں سے ہوتا ہے اور انسان اپنے احساس اور قلبی محسوسات پر قادر نہیں ہوتا،لہٰذا اسلام میں چار بیویوں کے درمیان ظاہری طور پر عدالت کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ اس طرح فساد اور لڑائی کا امکان پایا جاتا ہے
Bookmarks