Results 1 to 19 of 19

علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

This is a discussion on علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر within the Zaarori Maloomat forums, part of the Mera Deen Islam category; بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تصور علم ایک اہم فلسفیانہ تصور ہے جو کسی بھی صاحب فکر کے تصورات کے فہم ...

  1. #1
    iTT Student
    Join Date
    Nov 2010
    Location
    Pakistan
    Posts
    3

    علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    تصور علم ایک اہم فلسفیانہ تصور ہے جو کسی بھی صاحب فکر کے تصورات کے فہم کے لئے ضروری ہے ، مولانا احمد رضا خاں بریلوی علم کی ضرورت و اہمیت سے واقف تھے ، ان کی اپنی زندگی بچپن سے بڑھاپے تک حصول علم اور اشاعت علم کا نمونہ تھی ۔
    علم کی تعریف :
    مولانا احمد رضا خاں بریلوی علم کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
    علم وہ نور ہے جو شے اس کے دائرہ میں آگئی منکشف ہوگئی اور جس سے متلعق ہوگیا اس کی صورت ہمارے ذہن میں مرتسم ہوگئی ۔

    حقیقی اور اصلی علم :
    جو علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی صورت میں عطا کیا گیا وہی حقیقی اور اصلی علم ہے فرماتے ہیں :
    علم وہ ہے جو مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ہے ۔

    ایک جگہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نقل فرماتے ہیں :

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں علم تین ہیں*قرآن یا حدیث یا وہ چیز جو رہِ وجوب عمل میں ان کی ہمسر ہے اس کے سوا جو کچھ ہے سب فضول ہے

    امام غزالی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ :

    علم حقیقی وہی ہے جو ماسوی اللہ سے تعلق قطع کرکے اللہ سے رشتہ جوڑ*دے اور خلوص*نیت ہی سے حاصل ہوسکتا ہے ، غیر مخلص کا علم ، علم حقیقی نہیں ۔

    ذرائع علم :
    مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مندرجہ ذیل ذرائع علم ہیں ::
    وحی :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وحی الٰہی سب سے اہم ، حتمی اور مستند ذریعہ تعلیم ہے ، اس ذریعہ میں*کسی غلطی اور کذب کی گنجائش نہیں ہے ، انبیاءکرام کے ذریعے سے انسان کوعلم توحید دیاگیا ہے ۔

    ۔الہام :: وحی کے بعد الہام بھی ایک اہم ذریعہ علم ہے ، وحی صرف انبیاء کوہوتی ہے ، مگر الہام غیر انبیاء کو بھی ہوتا ہے اور اس کے لئے صاحب ایمان اور صاحب تقوٰی ہونا ضروری ہے انسان کے دل میں*کسی چیز یا کام کے بارے میں تنبیہ یا اشارہ کردیا جاتا ہے۔

    ۔کشف :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کشف بھی ایک اہم ذریعہ علم ہے ، کسی آدمی پر کسی چیز کے بارے میں*کوئی خیال اچانک بجلی کی چمک کی طرح انسان کے ذہن میں آجاتا ہے ، حقیقت حال آدمی پر ظاہر کردی جاتی ہے ۔

    عقل :: مولانا احمد رضا خاں*کے نزدیک عقل کا درجہ وحی سے کم ہے ، ہر عقلی استدلال اور معاملات کو قرآن و حدیث کے مطابق ہی پرکھا جاتا ہے ، دنیا کی ترقی و خوشحالی ، عالیشان عمارت اور دیگر ریل پیل عقلی کرشمہ سازوں*کی مرہون منت ہے ، عقل کے ذریعے ہی کسی اچھائی برائی کو پرکھا جاسکتا ہے ۔

    ۔حواس خمسہ :: ذرائع علم میں عقل کے بعد حواس خمسہ کا درجہ ہے ، یہ تقریبا ہر انسان کو حاصل ہیں ، آنکھ ، کان ، ناک ، زبان چھونے کے اعضاء حصول علم کے آلات ہیں ، حواس کے ذریعے ہی کسی اچھائی برائی کو پرکھا جاسکتا ہے ۔

    سند :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سند بھی علم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے ، آپ کے نزدیک کتب بینی اور افواہ رجال سے بھی علم حاصل ہوتا ہے ، ضرب الامثال اور اقوال زریں سند میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ، افواہ رجال اور کتب بینی سے جو علم حاصل ہوتا ہے یہ وہ باتیں ہوتی ہیں جو کسی کتب کے بھی مستند ، لائق اور معتبر افراد کی کہی جاتی ہیں*۔

    حتمی و قطعی سر چشمہ علم
    مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سب سے حتمی اور قطعی ذریعہ سر چشمہ علم وحی الٰہی ہے اور باقی تمام علوم اور ذرائع کی صداقت کو اسی سر چشمہ علم کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے ، ذرائع علم میں وحی ، الہام ، عقل اور حواس خمسہ کے متعلق آپ کی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیے جس میں ان ذرائع کے مقام و مرتبہ کا صحیح علم ہوتا ہے ۔اللہ عزوجل نے بندے بنائے اور انہیں کان ، آنکھ ہاتھ پاؤں زبان وغیرہ آلات و جوارح عطافرمائے اور انہیں کام میں لانے کا طریقہ الہام کیا اور ان کے ارادے کا تابع و فرمانبردار کردیا کہ اپنے منافع حاصل کریں اور مضرتوں سے بچیں ، پھر اعلٰی درجہ کے شریف جوہر یعنی عقل سے ممتاز فرمایا جس سے تمام حیوانات پر انسان کا درجہ بڑھایا عقل کو ان امور کے ادارک کی طاقت بخشی خیر و شر ، نفع وضرر ، حواس ظاہری نہ پہچان سکتے تھے ، پھر اسے بھی فقط اپنی سمجھ پر بےکس و بےیاور نہ چھوڑا ،ہنوز لاکھوں باتیں ہیں جن کو عقل خود ادراک نہ کرسکتی تھی اور جس کا ادراک ممکن تھا ، ان میں لغزش کرنے ٹھوکریں کھانے سے پناہ کے لئے کوئی زبردست دامن یا پناہ نہ رکھتی تھی ، لہذا انبیاء بھیج کر کتب اتار کر ذراذرا سی بات کا حسن و قبح خوب جتاکر اپنی نعمت تمام و کمال فرمادی ، کسی عذر کی جگہ باقی نہ چھوڑی ۔
    اس عبارت سے صاف ظاہر ہے وحی ، حقیقی اور حتمی سر چشمہ علم ہے اور دیگر ذرائع علم کو وحی کے تابع کرکے استعمال کرنے پر زور دیاگیا ہے ۔

    علم کی اقسام ::
    مولانا احمد رضا علیہ الرحمۃ کے نزدیک علم کے مندرجہ ذیل اقسام ہیں:
    الف ۔ ۔ ۔ ۔ اہمیت و ضرورت کے لحاظ سے علم کی اقسام:

    فرض عین
    فرض کفایہ
    مباح
    مکروہ
    حرام

    1 - علم فرض عین :
    فرض عین علم ایسے علم کو کہتے ہیں جس کا حاصل کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہو۔ اسلام کے بنیادی عقائد و ایمانیات سے آگاہی ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ توحید و رسالت کا اقرار اسلام کا اساسی عقیدہ ہے۔ اجزائے ایمان کے بعد ارکان اسلام اور دیگر احکام شرعیہ کی واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔
    2۔ علم فرض کفایہ :
    وہ علم جو معاشرے کے تمام افراد کیلئے سیکھنا ضروری نہ ہو چند افراد ہی اگر سیکھ لیں تو دوسروں پر گناہ نہیں۔ ان میں فقہ ، تفسیر، حدیث توقیت، جغرافیہ وغیرہ شامل ہیں۔
    3۔ علم مباح:
    ایسا علم جس کا سیکھنا ضروری نہ ہو لیکن اسلام اس کے سیکھنے کی اجازت دیتا ہو اور جس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو تو یہ ایک مباح کام ( جائز کام ) ہوگا۔ مثلاً اشعار اور تاریخ کا علم وغیرہ۔
    4 ۔ مکروہ علم :
    ایسا علم جو وقت کے ضیاء کا باعث ہو اور جس سے فرائض شریعت میں غفلت پیدا ہوتی ہو۔ مثلاً علم ہندسہ، ہیئیت، فلسفہ منطق وغیرہ۔
    5۔ علم حرام :
    وہ علوم جو اسلام کی تعلیمات سے روکتا ہو اور سراسر نقصان کا باعث ہو۔ اس سے کچھ فائدہ نہ ہو مثلاً جادو، مسمر یزم فلسفہ قدیمہ، سحر ٹونے ٹوٹے وغیرہ۔
    ب۔ ۔ ۔ ۔ اقسام علم بلحاظ ملکیت :
    1۔ ۔ ۔ ۔ علم ذاتی :

    علم ذاتی کے بارے میں آپ کا ارشاد سنیئے :

    “ علم ذاتی ( وہ ہے جو ) اللہ عزوجل سے خاص ہے اس کے غیر کے لئے محال جو اس میں سے کوئی چیز اگر وہ ایک ذرہ سے کم تر سے کم تر، غیر خدا کیلئے مانے وہ یقیناً کافر و مشرک ہے۔ “

    2۔ ۔ ۔ ۔ علم عطائی :

    اللہ تعالٰی کی طرف سے جو علم اس کی مخلوق کو عطا کیا جاتا ہے وہ عطائی علم ہے، فرماتے ہیں:

    “ اجماع ہے کہ اس فضل جلیل میں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حصہ تمام انبیاء، تمام جہانوں سے اتم و اعظم ہے۔ اللہ کی عطاء سے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ ہی جانتا ہے “

    ج ۔ ۔ ۔ ۔ بلحاظ فائدہ و ضرر اقسام علم :

    1۔ ۔ ۔ ۔ علم شرعیہ :

    وہ علم جو انبیاء کرام سے مستفاد ہو اور عقل انسانی کسی رسائی وہاں تک نہ ہو سکتی ہو۔ یہ علم قرآن و سنت کی تفہیم کے لئےمدد گار ثابت ہو۔

    2- - - - علم غیر شرعیہ:

    ایسا علم جس کی تحصیل و تعلم قرآن و حدیث نے حرام کر دیا ہو اور جس سے خلاف شرع امور تعلیم کئے جائیں۔

    د- - - - اقسام علم بلحاظ ذریعہ علم :

    2- - - - علم عقلیہ :

    وہ علم جو عقل کی مدد سے حاصل کیا جائے مثلاً منطق، فلسفہ ، طب وغیرہ

    3- - - - علم نقلیہ :

    ایسا علم جس میں عقل کو کوئی دسترس نہیں جو وحی نبوت سے منقول ہے جس کو آئندہ ہو بہو نقل کے ذریعے حاصل کیا جائے مثلاً قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ۔

    ر ۔ ۔ ۔ ۔ نفع و نقصان کے لحاظ سے علم کی اقسام :

    نفع و نقصان کے لحاظ سے بھی علم کو دو صحوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

    1- - - - علم نافع :

    ایسا علم جو شریعت کے مطابق زندگی کو بہتر طور پر گزارنے کے قابل بنائے نیز جس میں فقاھت ( سمجھ بوجھ خصوصاً دینی امور کے بارے میں ) ہو۔ آپ فرماتے ہیں۔

    “ علم نافع وہ ہے جس میں فقاھت ہو “

    2- - - - علم غیر نافع :

    وہ علم جو نہ تو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے میں کام آئے اور نہ ہی اس سے دین کے بارے میں سمجھ بوجھ ہو۔

    س- - - - اقسام علم بلحاظ حقیقت علم:

    1- علم مقصودہ :

    وہ علم جس کا حصول مقصد حیات ہو، قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر وغیرہ مقصودہ کے زمرے میں آتے ہیں۔

    2- علم آلیہ :

    وہ علم جو علم مقصودہ کے حصول میں معاون ثابت ہو مثلاً زبان، لغت، معانی وغیرہ۔ علم آلیہ قرآن و حدیث کی تفہیم میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔

    ش - - - - نظریہ و کسب کے لحاظ سے علم کی اقسام :

    1- نظری علم :

    وہ علم جس کا تعلق محض عقل، دل، دماغ اور فکر سے ہوتا ہے۔ علم العقائد، علم الاکلام وغیرہ نظری علم ہیں۔

    2- فنی علم :

    وہ علم جو کسی پیشہ کے اپنانے میں اور ذریعہ معاش بنانے میں ممدد معاون ہو۔ طبی، صنعتی ، کاروباری علوم اسی کے زمرے میں آتے ہیں۔

    مولانا احمد رضا خاں نے نہایت واضح، جامع اور ٹھوس استدلال پر مبنی تصور علم، ذرائع علم اور اقسام پیش کی ہیں آپ نے علم کے وسیع ترین موضوع کو جس انداز میں مختلف زاویوں، مختلف پہلوؤں سے الگ الگ اقسام کے میں پیش کیا ہے اس سے فلسفہ ء علم التعلیم کے اساتذہ و طلبہ کیلئے تصور علم کی تفہیم نہایت آسان اور خوب آشکار ہو گئی ہے۔

  2. #2
    *I am Banned*
    Join Date
    Apr 2009
    Posts
    916

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    bahye jan text ko bara kare parhne me mushkil arahi he

  3. #3
    Student sudes_102's Avatar
    Join Date
    Jul 2009
    Location
    Islamabad
    Posts
    1,521

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    احمد رضا خان ایک متنازع شخصیت تھی، عرب علماء سمیت مسلمان علماء کی ایک عظیم اکثریت اسے صریحاً گمراہ سمجھتی ہے، ایسی متنازع شخصیت کے حالات زندگی اگر کسی کو بیان کرنے ہیں تو وہ اوپن فورم پر کئے جائیں علاوہ ازیں ہم بھی احمد رضا صاحب کے بارے میں اپنے خیالات پیش کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں
    توحید ڈاٹ کام - کتاب و سنت کی پکار
    http://www.tohed.com/

  4. #4
    Student sudes_102's Avatar
    Join Date
    Jul 2009
    Location
    Islamabad
    Posts
    1,521

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    جناب احمد رضا کے خاندان کے متعلق


    جناب احمد رضا کے خاندان کے متعلق صرف اتنا ہی معلوم ہوسکا کہ ان کے والد اور دادا کا شمار احناف کے علماء میں ہوتا ہے۔ البتہ جناب بریلوی صاحب کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ان کا تعلق شیعہ خاندان سے تھا۔ انہوں نے ساری عمر تقیہ کیے رکھا اور اپنی اصلیت ظاہر نہ ہونے دی' تاکہ وہ اہل سنت کے درمیان شیعہ عقائد کو رواج دے سکیں۔
    ان کے مخالفین اس کے ثبوت کے لیے جن دلائل کا ذکر کرتے ہیں' ان میں سے چند ایک یہاں بیان کیے جاتے ہیں:
    جناب احمد رضا کے آباء اجداد کے نام شیعہ اسماء سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان کاشجرہ نسب ہے:
    احمد رضا بن نقی علی بن رضا علی بن کاظم علی۔46
    بریلویوں کے اعلیٰ حضرت نے امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے خلاف نازیبا کلمات کہے ہیں۔ عقیدہ اہلسنت سے وابستہ کوئی شخص ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اپنے ایک قصیدے میں لکھا ہے :

    تنگ و چست ان کا لباس اور وہ جوبن کا ابھار
    مسکی جاتی ہے قبا سر سے کمر تک لے کر
    یہ پھٹا پڑتا ہے جوبن مرے دل کی صورت
    کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ وبر47


    انہوں نے مسلمانوں میں شیعہ مذہب سے ماخوذ عقائد کی نشر و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کیا۔48
    کوئی ظاہری شیعہ اپنے اس مقصد میں اتنا کامیاب نہ ہوتا' جتنی کامیابی احمد رضا صاحب کو اس سلسلے میں تقیہ کے لبادے میں حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے تشیع پر پردہ ڈالنے کے لیے چند ایسے رسالے بھی تحریر کیے جن میں بظاہر شیعہ مذہب کی مخالفت اور اہل سنت کی تائید پائی جاتی ہے۔ شیعہ تقیہ کا یہی مفہوم ہے' جس کا تقاضا انہوں نے کماحقہ ادا کیا۔
    جناب احمد رضا نے اپنی تصنیفات میں ایسی روایات کا ذکر کثرت سے کیا ہے جو خالصتاً شیعی روایات ہیں اور ان کا عقیدہ اہلسنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
    مثلاً:
    "انّ علیّا قسیم النار۔"
    "انّ فاطمۃ سمّیت بفاطمۃ لانّ اللہ فمھا و ذریّتھا من النّار۔"
    یعنی"حضرت علی رضی اللہ عنہ قیامت کے روز جہنم تقسیم کریں گے۔49 اور "حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کی اولاد کو جہنم سے آزاد کردیا ہے۔50
    شیعہ کے اماموں کو تقدیس کا درجہ دینے کے لیے انہوں نے یہ عقیدہ وضع کیا کہ اغواث (جمع غوث' یعنی مخلوقات کی فریاد رسی کرنے والے ) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوتے ہوئے حسن عسکری تک پہنچتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے وہی ترتیب ملحوظ رکھی' جو شیعہ کے اماموں کی ہے۔51
    احمد رضا نے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ' کو مشکل کشا قرار دیا اور کہا:
    "جو شخص مشہور دعائے سیفی (جو شیعہ عقیدے کی عکاسی کرتی ہے) پڑھے' اس کی مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔"
    دعائے سیفی درج ذیل ہے:
    ناد علیّا مظھر العجا ئب
    تجدہ عونالّک فی النّوائب
    کلّ ھمّ وغمّ سینجلّی
    بولیتک یا علی یا علی

    یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارو جن سے عجائبات کا ظہور ہوتا ہے۔ تم انہیں مددگار پاؤگے۔ اے علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے طفیل تمام پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔52
    اسی طرح انہوں نے پنجتن پاک کی اصطلاح کو عام کیا اور اس شعر کو رواج دیا:
    لی خمسۃ اطفی بھا حرّالوباء الحاطمۃ
    المصطفٰی المرتضٰی و وابناھما و الفاطمۃ

    یعنی پانچ ہستیاں ایسی ہیں جو اپنی برکت سے میری امراض کو دور کرتی ہیں۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ' علی رضی اللہ عنہ، حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ، فاطمہ رضی اللہ عنہا!53
    انہوں نے شیعہ عقیدے کی عکاسی کرنے والی اصطلاح "جفر" کی تائید کرتے ہوئے اپنی کتاب خالص الاعتقاد میں لکھا ہے:
    "جفر چمڑے کی ایک ایسی کتاب ہے جو امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے اہل بیت کے لیے لکھی۔ اس میں تمام ضرورت کی اشیاء درج کردیں ہیں۔ اس طرح اس میں قیامت تک رونما ہونے والے تمام واقعات بھی درج ہیں۔54
    اسی طرح شیعہ اصطلاح الجامعتہ کا بھی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
    "الجامعتہ ایک ایسا صحیفہ ہے' جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام واقعات عالم کو حروف کی ترتیب کے ساتھ لکھ دیا ہے۔ آپ کی اولاد میں سے تمام ائمہ امور و واقعات سے باخبر تھے۔55
    جناب بریلوی نے ایک اور شیعہ روایت کو اپنے رسائل میں ذکر کیا ہے کہ :
    "امام احمد رضا (شیعہ کے آٹھویں امام ) سے کہا گیا کہ کوئی دعا ایسی سکھلائیں جو ہم اہل بیت کی قبروں کی زیارت کے وقت پڑھا کریں' تو انہوں نے جواب دیا کہ قبر کے قریب جاکر چالیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر کہو السلام علیکم یا اہل البیت ' اے اہل بیت میں اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے آپ کو خدا کے حضور سفارشی بنا کر پیش کرتا ہوں اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے براء ت کرتا ہوں۔56"
    یعنی شیعہ کے اماموں کو مسلمانوں کے نزدیک مقدس اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اہل سنت سے افضل قرار دینے کے لئے انہوں نے اس طرح کی روایات عام کیں۔ حالانکہ اہل تشیع کے اماموں کی ترتیب اور اس طرح کے عقائد کا عقیدہ اہل سنت سے کوئی ناطہ نہیں ہے۔
    جناب احمد رضا شیعہ تعزیہ کو اہل سنت میں مقبول بنانے کے لیے اپنی ایک کتاب میں رقمطراز ہیں:
    "تبرک کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقبرے کا نمونہ بناکر گھر کے اندر رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔57
    اس طرح کی لاتعداد روایات اور مسائل کا ذکر ان کی کتب میں پایا جاتا ہے
    جناب احمد رضا نے شیعہ کے اماموں پر مبنی سلسلہ بیعت کو بھی رواج دیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک عربی عبارت وضع کی ہے جس سے ان کی عربی زبان سے واقفیت کے تمام دعووں کی حقیقت بھی عیاں ہوجاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
    "اللّٰھم صلّ وسلّم علٰی وبارک علٰی سیّدنا مولانا محمّد المصطفٰی رفیع المکان المرتضٰی علی الشان الذی رجیل من امّتہ خیر من رّجال من السّالفین و حسین من زمرتہ احسن من کذا و کذا حسنا من السّابقین السّیّد السّجاد زین العابدین باقر علوم الانبیاء والمرسلین ساقی الکوثر و مالک تسنیم و جعفر الّذی یطلب موسی الکلیم رضا ربّہ بالصّلاۃ علیہ۔58"
    عربی زبان کا ادنیٰ علم رکھنے والا بھی اس عبارت کی عجمیت' رکاکت اور بے مقصدیت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ وہ ساڑھے تین برس کی عمر میں فصیح عربی بولا کرتا تھا' کس قدر عجیب لگتا ہے؟
    "حسین من زمرتہ احسن من وکذا وکذا حسنا من السّابقین" کیسی بے معنی ترکیب ہے۔
    "یطلب موسی الکلیم رضا ربّہ بالصّلاۃ علیہ" میں موسٰی الکلیم سے مراد کون ہیں؟ اگر مراد موسیٰ کاظم ہیں تو کلیم سے کیا معنی؟ اور اگر مراد نبی و رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں" تو کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام (معاذ اللہ) امام جعفر صادق پر درود بھیج کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
    بہرحال یہ عبارت مجموعہ رکاکت بھی ہے اور مجموعہ خرافات بھی!
    حاصل کلام یہ ہے کہ رضا بریلوی صاحب نے اس نص میں شیعہ کے اماموں کو ایک خاص ترتیب سے ذکر کرکے مسلمانوں کو رفض و تشیع سے قریب لانے کی سعی کی ہے۔
    جناب بریلوی صاحب نے برصغیر کے اہل سنت اکابرین کی تکفیر کی اور فتوی دیا کہ ان کی مساجد کا حکم عام گھروں جیسا ہے انہیں خدا کا گھر تصور نہ کیا جائے۔
    اسی طرح انہوں نے اہل سنت کے ساتھ مجالست و مناکحت کو حرام قرار دیا۔ اور جہاں تک شیعہ کا تعلق ہے تو وہ ان کے اماموں کے باڑوں کے ابجدی ترتیب سے نام تجویز کرتے رہے۔59
    احمد رضا صاحب پر رفض و تشیع کا الزام اس لیے بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے شیعہ کے اماموں کی شان میں شیعوں کے انداز میں مبالغہ آمیز قصائد بھی لکھے۔60

    فصاحت عربی سے ناواقفی
    جناب احمد رضا کی یہ عبارت بے معنیٰ ترکیبوں اور عجمیت زدہ جملوں کا مجموعہ ہے' مگر عبدالحکیم قادری صاحب کو اصرار ہے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں دلیل سے خالی اصرار کا تو کوئی جواب نہیں' اگر انہیں اصرار ہے تو سو بار رہے' ہمیں اس پر کوئی انکار نہیں۔ ان کے اصرار سے یہ شکستہ عبارت درست تو نہیں ہوجائے گی! مگر ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ ایک صاحب نے مصنف رحمہ اللہ علیہ کی عربی کتاب میں سے بزعم خویش چند غلطیاں نکال کر اپنی جہالت کا ثبوت جس طرح دیا ہے' وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے اپنی عجمیت زدہ ذہنیت سے جب "البریلویہ" کا مطالعہ کیا تو انہیں کچھ عبارتیں ایسی نظر آئیں جو ان کی تحقیق کے مطابق عربی قواعد کے اعتبار سے غیر صحیح تھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ان "غلطیوں" کی "تصحیح" بھی کی ہوئی تھی اور یہی "تصحیح" ان کی جہالت کا راز کھولنے کا سبب بن گئی۔
    ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ان کی تصحیح میں کس قدر تغلیط ہے۔ ہم ذیل میں ان کی چند تصحیحات نقل کرتے ہیں۔ تاکہ قارئین ان کی علمی تحقیق کاوش سے استفادہ فرماسکیں۔
    الحجم الصغیر : موصوف لکھتے ہیں کہ یہ لفظ غلط ہے اس کی بجائے القطع الصغیر ہونا چاہیے تھا۔
    جناب کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے۔ موصوف کا گمان یہ ہوا کہ چونکہ حجم تو اردو میں مستععمل ہے' لہٰذا عربی کا لفظ نہیں ہوسکتا۔ المنجد مادہ ح ج م میں الحجم کا معنی مقدار الحجم سے کیا گیا ہے۔ موصوف کو چاہئے کہ وہ اپنی معلومات درست کرلیں۔
    المواضیع : اس کی تصحیح جناب نے المواضع سے کی ہے۔ پوری عبارت ہے "فلاجل ذلک تضاربت اقوالھم فی ھذا الخصوص (ای الموضوع) مثل المواضیع (جمع الموضوع) الاخرے"
    موصوف نے اسے "موضع" کی جمع سمجھ لیا اور اس کی تصحیح "مواضع" سے کردی' جو بجائے خود ایک غلطی ہے۔
    نظرۃ تقدیر و احترام : تصحیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں نظرۃ تعظیم واحترام گویا جناب نے اپنی علمیت کے زور پر یہ سمجھا کہ یہ عربی کا لفظ نہیں ہے۔ حالانکہ عربی لغت کی تمام کتب نے اس لفظ کو ادا کیا ہے۔ اور اس کا معنی "الحرمتہ والوقار" سے کیا ہے۔ ملاحظہ ہو المنجد ص 245 وغیرہ مادہ القدر
    بین السنۃ: موصوف کو یہ علم نہیں کہ لفظ "السنہ" کہہ کر اہلسنت کا مفہوم بھی ادا کیا جاتا ہے۔ مولف رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الشیعہ والسنہ" میں "السنہ" سے مراد اہلسنت ہیں۔ عربی زبان سے معمولی واقفیت رکھنے والا بھی اس معنی سے ناآشنا نہیں۔ اس کی تصحیح "اہل السنّہ" سے کرنا اس لفظ کے استعمال سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔
    ان یبوس : فرماتے ہیں کہ یہ عجمی لفظ ہے" اس لیے عربی میں اس کا استعمال نا درست ہے۔موصوف کو اگر عربی ادب سے ذرا سی بھی واقفیت ہوتی تو شاید یہ بات لکھ کر علمی حلقوں میں جگ ہنسائی کا باعث نہ بنتے۔ کیونکہ عربی زبان میں اس کا استعمال عام رائج ہے۔ ملاحظہ ہو المنجد مادہ ب وس' باسہ ' بوسا ' قبلہ
    ترک التکایا : لکھتے ہیں: یہ عجمی لفظ ہے' حالانکہ یہ "اتکا" سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی ہے : اسند ظھرہ الٰی شئی" ملاحظہ ہو المنجد مادہ وک ا
    رسید : ان کا اعتراض ہے: یہ لفظ عربی زبان میں مستعمل نہیں" حالانکہ عرب ممالک میں رسید الامتعتہ کا استعمال عام رائج ہے۔ اسے رصید بھی لکھا جاتا ہے۔ المنجد میں ہے (انظر مادہ رص د)
    اصدر وافرمانا : المنجد مادہ ف رم۔ الفرمان ج فرامین ای عھد السطان للولاۃ
    وہ الفاظ و کلمات جو عربی کے ساتھ ساتھ دوسری لغات میں بھی استعمال ہوتے ہیں' ان کا استعمال غلط نہیں ہے۔ ان کی تغلیط جہالت کی واضح دلیل ہے۔
    کتب فیہا لال البیت : شیعہ کے نزدیک آل بیت اور اہل بیت کا مفہوم ایک ہی ہے "البریلویہ" کی اس عبارت میں آل بیت کا استعمال ہی صحیح ہے' کیونکہ اس احمد رضا صاحب نے شیعوں کی ترجمانی کی ہے۔
    ومن جاء : ان کی تصحیح الیٰ من جاء سے کی ہے۔ یہاں الیٰ کا استعمال اس لیے نہیں کیا گیا کہ پہلی الیٰ پر عطف ہے۔ اس لیے دوبارہ استعمال ضروری نہ رہا۔
    علاوہ ازیں کچھ غلطیاں ایسی درج ہیں جو کتاب وطباعت کی ہیں۔ مثلاً کبیب النمل! کہ اصل میں ہے "کدبیب النمل" ٹائپ کی غلطی سے وحذف ہوگئی ہے۔ اسی طرح القراء ت میں ء کی جگہ ۃ غلطی سے ٹائپ ہوگیا ہے۔ مناصرۃ للاستعمار۔ کہ اصل میں مناصرۃ للاستعمار یا استرقاق کی بجائے استر تقاق وغیرہ۔
    بہرحال غلطیوں کی یہ فہرست قادری صاحب کی عربی زبان پر عدم قدرت کی بین اور واضح دلیل ہے۔ بریلویت کے حاملین کی علمیت پہلے ہی مشکوک تھی' قادری صاحب نے اس پر مہر ثبت کردی ہے۔
    (ثاقب)

    حوالہ جات

    46 حیات اعلیٰ حضرت ص ٢
    47 حدائق بخشش جلد ٣ ص ٢٣
    48 فتاویٰ بریلویہ ص ١٤
    49 الامن والعلی مصنفہ احمد رضا بریلوی ص ٥٨
    50 ختم نبوت از احمد رضا ص ٩٨
    51 ملفوظات ص ١١٥
    52 الامن والعلی ص ١٢'١٣
    53 فتاویٰ رضویہ جلد ٦ ص ١٨٧
    54 خالص الاعتقاد از احمد رضا ص ٤٨
    55 ایضاً ص ٤٨
    56 حیاۃ الموات درج شدہ فتاویٰ رضویہ از احمد رضا بریلوی جلد ٤ ص ٢٤٩
    57 رسالہ بدرالانوار ص ٥٧
    58 انوار رضا ص ٢٧
    59 ملاحظہ ہو یاد اعلیٰ حضرت ص ٢٩
    60 ملاحظہ ہو حدائق بخشش از احمد رضا مختلف صفحات
    توحید ڈاٹ کام - کتاب و سنت کی پکار
    http://www.tohed.com/

  5. #5
    Student sudes_102's Avatar
    Join Date
    Jul 2009
    Location
    Islamabad
    Posts
    1,521

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    جناب احمد رضا صاحب کا ذریعہ معاش


    جناب احمد رضا صاحب کے ذریعہ معاش کے متعلق مختلف روایات آئیں ہیں۔ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ وہ زمیندار خان سے تعلق رکھتے تھے اور گھر کے اخراجات کے لئے انہیں سالانہ رقم مل جاتی تھی جس سے وہ گزر بسر کرتے۔61
    بعض اوقات سالانہ ملنے والی رقم کافی نہ ہوتی اور وہ دوسروں سے قرض لینے پر مجبور ہوجاتے' کیونکہ ان کے پاس ڈاک کے ٹکٹ خریدنے کے لیے بھی رقم موجود نہ ہوتی۔62
    کبھی کہا جاتا کہ انہیں دست غیب سے بکثرت مال و دولت ملتا تھا۔ ظفرالدین بہاری راوی ہیں کہ جناب بریلوی کے پاس ایک مقفل کنجی صندوقچی تھی' جسے وہ بوقت ضرورت ہی کھولتے تھے۔ اور جب اسے کھولتے تو مکمل طور پر نہیں کھولتے تھے اس میں ہاتھ ڈالتے اور مال' زیور اور کپڑے جو چاہتے نکال لیتے تھے۔63
    جناب بریلوی کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت اپنے احباب اور دوسرے لوگوں میں بکثرت زیورات اور دوسری چیزیں تقسیم کرتے تھے اور یہ سارا کچھ وہ اس چھوٹی سی صندوقچی سے نکالتے۔ ہمیں حیرت ہوتی کہ نامعلوم اتنی اشیاء اس میں کہاں سے آتی ہیں۔ 64
    ان کے مخالفین یہ تہمت لگاتے ہیں کہ "دستِ غیب" کا صندوقچی وغیرہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ انگریزی استعمار کا ہاتھ تھا' جو انہیں اپنے اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لیے امداد دیتا تھا۔65
    میری رائے یہ ہے کہ ان کی آمدن کا بڑا ذریعہ لوگوں کی طرف سے ملنے والے تحائف اور امامت کی تنخواہ تھی۔ جس طرح ہمارے ہاں عام رواج ہے کہ دیہاتوں میں اپنے علماء کی خدمت صدقات و خیرات سے کی جاتی ہے' اور عموماً یہی ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے۔
    ان کے ایک پیروکار بیان کرتے ہیں کہ :
    "ایک روز ان کے پاس خرچ کے لیے ایک دمڑی نہ تھی۔ آپ ساری رات بے چین رہے۔ صبح ہوئی تو کسی تاجر کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے 51 روپے بطور نذرانہ آپ کی خدمت میں پیش کیے۔67
    ایک مرتبہ ڈاک کا ٹکٹ خریدنے کے لیے ان کے پاس کچھ رقم نہیں تھی تو ایک مرید نے انہیں دو سو روپے کی رقم ارسال کی۔68
    باقی جہاں تک زمینداری اور صندوقچی وغیرہ کا تعلق ہے' تو اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوتا کہ ان کا خاندان زراعت وغیرہ سے متعلق تھا۔ باقی کرامتوں کے نام پہ صندوقچی وغیرہ کے افسانے بھی مریدوں کی نظر میں تقدیس و احترام کا مقام دینے کے لیے وضع کیے گئے ہیں' یہ سب بے سروپا باتیں ہیں۔

    عادات اور طرز گفتگو
    بریلوی اعلیٰ حضرت پان کثرت سے استعمال کرتے تھے' حتٰی کہ رمضان المبارک میں وہ افطار کے بعد صرف پان پر اکتفا کرتے۔69
    اسی طرح حقہ بھی پیتے تھے۔ 70دوسری کھانے پینے کی اشیاء پر حقہ کو ترجیح دیتے۔ ہمارے ہاں دیہاتیوں اور بازاری قسم کے لوگوں کی طرح آنے جانے والے مہمان کی تواضح بھی حقے سے کرتے۔71
    مزے کی بات ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:
    "میں حقہ پیتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھتا' تاکہ شیطان بھی میرے ساتھ شریک ہوجائے۔72
    لوگوں کے پاؤں چومنے کی عادت بھی تھی۔ ان کے ایک معتقد راوی ہیں کہ :
    "آپ حضرت اشرفی میاں کے پاؤں کو بوسہ دیا کرتے تھے۔73
    جب کوئی صاحب حج کرکے واپس آجاتے تو ایک روایت کے مطابق فوراً اس کے پاؤں چوم لیتے!74

    اسلوب بیان:

    اپنے سے معمولی سا اختلاف رکھنے والوں کے خلاف سخت زبان استعمال کیا کرتے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی رو رعایت کے قائل نہ تھے۔ بڑے فحش اور غلیظ لفظ بولتے۔ مخالف کو کتا'خنزیر'کافر'سرکش'فاجر'مر� �د اور اس طرح کے دوسرے سخت اور غلیظ کلمات کی بریلوی حضرات کے اعلیٰ حضرت کے نزدیک کوئی قدروقیمت نہ تھی۔ وہ بے مہا و بے دریغ یہ کلمات ادا کرجاتے۔ ان کی کوئی کتاب اس انداز گفتگو اور "اخلاقیات" سے بھری ہوئی طرز تحریر سے خالی نہیں ہے۔
    ان کی "شیرینیء لب" کا ذکر گزشتہ صفحات میں حاشیہ کے اندر گزرچکا ہے۔ یہاں ہم نمونے کے طور پر ان کی مختلف عبارتوں میں سے ایک قطعہ نقل کرتے ہیں' جس سے ان کے اسلوب بیان کی تصویر قارئین کے سامنے آجائے گی۔
    وہ دیوبندیوں کے خدا کی تصویر کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
    "تمہارا خدا رنڈیوں کی طرح زنا بھی کرائے' ورنہ دیوبند کی چکلے والیاں اس پر ہنسیں گی کہ نکھٹو تو ہمارے برابر بھی نہ ہوسکا!75
    "پھر ضروری ہے کہ تمہارے خدا کی زن بھی ہو۔ اور ضروری ہے کہ خدا کا آلہ تناسل بھی ہو۔ یوں خدا کے مقابلے میں ایک خدائن بھی ماننی پڑے گی۔ 76 نستغفراللہ!
    اندازہ لگائیں' اس طرح کا انداز تحریر کسی عالم دین کو زیب دیتا ہے؟ اور اس پر طرہ یہ کہ تجدید دین کا دعویٰ !
    مجدد دین کے لیے اس قسم کی گفتگو کا اختیار کرنا کس حدیث سے ثابت ہے؟
    انہیں عالم دین کہنے پر اصرار ہو تو ضرور کہئے' مگر مجدد کہتے ہوئے تھوڑی سی جھجک ضرور محسوس کرلیا کریں۔
    اس ضمن میں ایک واقعہ ہے کہ یہ بریلوی صاحب ایک مرتبہ کسی کے ہاں تعلیم کی غرض سے گئے۔ مدرس نے پوچھا کہ آپ کا شغل کیا ہے ؟
    کہنے لگے "وہابیوں کی گمراہی اور ان کے کفر کا پول کھولتا ہوں"۔ مدرس کہنے لگے "یہ انداز درست نہیں۔" تو جناب بریلوی صاحب وہاں سے واپس لوٹ آئے77 اور ان سے پڑھنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ انہوں نے احمد رضا صاحب کو موحدین کی تکفیر و تفسیق سے روکا تھا۔
    جہاں تک ان کی لغت کا تعلق ہے' تو وہ نہایت پیچیدہ قسم کی عبارتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ بے معنی الفاظ و تراکیب استعمال کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں علوم و معارف میں بہت گہری دسترس حاصل ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں اس عالم دین کو' جو اپنا مافی الضمیرکھول کر بیان نہ کرسکے اور جس کی بات سمجھ میں نہ آئے' اسے بڑے پائے کا عالم دین تصور کیا جاتا ہے۔
    ان کے ایک معتقد لکھتے ہیں کہ :
    "اعلیٰ حضرت کی بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان علم کا سمندر ہو!78
    ان کی زبان میں فصاحت وروانی نہیں تھی۔ اس بنا پر تقریر سے گریز کرتے تھے' صرف خود ساختہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے پیر آل رسول شاہ کے عرس کے موقعہ پر چند کلمات کہہ دیتے!79

    حوالہ جات

    61 انوار رضا ص ٣٦٠
    62 حیات اعلیٰ حضرت ص ٥٨
    63 اعلیٰ حضرت بستوی ص ٧٥' انوار رضا ص ٥٧
    64 حیات اعلیٰ حضرت ص ٥٧
    65 اس کا تفصیلاً ذکر آگے آرہا ہے۔
    66 حیات اعلیٰ حضرت ص ٥٦
    67 ایضاً ص ٥٦
    68 ایضاً ص ٥٨
    69 انوار رضاص ٢٥٦
    70 کتنی عجیب بات ہے دوسروں کو معمولی باتوں پر کافر قرار دینے والا کود کیسے حقہ نوشی کو جائز سمجھتا ہے اور اس کا مرتکب ہے؟
    71 حیات اعلیٰ حضرت ص ٦٧
    72 ملفوظات
    73 اذکار حبیت رضا طبع مجلس رضا لاہور ص ٢٤
    74 انوار رضا ص ٣٠٦
    75 سبحان السبوح از احمر رضا بریلوی ص ١٤٢
    76 ایضاً
    77 حیات اعلیٰ حضرت از ظفر الدین بہاری
    78 انوار رضا ص ٢٨٦
    79 حیات اعلیٰ حضرت از ظفر الدین بہاری رضوی



    توحید ڈاٹ کام - کتاب و سنت کی پکار
    http://www.tohed.com/

  6. #6
    Student sudes_102's Avatar
    Join Date
    Jul 2009
    Location
    Islamabad
    Posts
    1,521

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    جناب احمد رضا صاحب کی تصنیفات

    ان کی تصنیفات کے بیان سے قبل ہم قارئین کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ بریلوی قوم کو مبالغہ آرائی کی بہت زیادہ عادت ہے۔ اور مبالغہ آرائی کرتے وقت غلط بیانی سے کام لینا ان کی سرشت میں داخل ہے۔ تصنیفات کے سلسلہ میں بھی انہوں نے بے جا غلو سے کام لیا ہے اور حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے ان کی سینکڑوں تصنیفات گنوادی ہیں' حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان کے متضاد اقوال کا نمونہ درج ذیل ہے:
    ان کے ایک راوی کہتے ہیں :
    "اعلیٰ حضرت کی تصنیفات 200 کے قریب تھیں۔80
    ایک روایت ہے کہ 250 کے قریب تھیں۔81
    ایک روایت ہے' 350 کے قریب تھیں۔82
    ایک روایت ہے' 450 کے لگ بھگ تھیں۔83
    ایک اور صاحب کہتے ہیں' 500 سے بھی متجاوز تھیں۔84
    بعض کا کہنا ہے' 600 سے بھی زائد تھیں۔
    ایک اور صاحب ان تمام سے آگے بڑھ گئے اورکہا کہ ایک ہزار سے بھی تجاوز کرگئی تھیں۔85
    حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ ان کی کتب کی تعداد' جن پر کتاب کا اطلاق ہوتا ہے' دس سے زیادہ نہیں ہے۔ شاید اس میں بھی مبالغہ ہو۔۔۔۔۔تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
    جناب بریلوی صاحب نے مستقل کوئی کتاب نہیں لکھی۔ وہ فتویٰ نویسی اور عقیدہ توحید کے حاملین کے خلاف تکفیر و تفسیق میں مشغول رہے۔ لوگ ان سے سوالات کرتے او ر وہ اپنے متعدد معاونین کی مدد سے جوابات تیار کرتے اور انہیں کتب و رسائل کی شکل دے کر شائع کروادیا جاتا۔ بسا اوقات بعض کتب دستیاب نہ ہونے کے باعث سوالات کو دوسرے شہروں میں بھیج دیا جاتا' تاکہ وہاں موجود کتابوں سے ان کے جوابات کو مرتب کیا جاسکے۔ جناب بریلوی ان فتاویٰ کو بغیر تنقیح کے شائع کرواتے۔ اسی وجہ سے ان کے اندر ابہام اور پیچیدگی رہ جاتی اور قارئین کی سمجھ میں نہ آتے۔ جناب بریلوی مختلف اصحاب کے تحریر کردہ فتاویٰ کا کوئی تاریخی نام رکھتے' چنانچہ اسے ان کی طرف منسوب کردیا جاتا۔
    جناب بریلوی کا قلم سوالات کے ان جوابات میں خوب روانی سے چلتا' جن میں توحید وسنت کی مخالفت اور باطل نظریات و عقائد کی نشر واشاعت ہوتی۔ چند مخصوص مسائل مثلاً علم غیب'حاضروناظر'نور وبشر'تصرفات وکرامات اور اس قسم کے دوسرے خرافی امور کے علاوہ باقی مسائل میں جناب بریلوی کا قلم سلاست و روانی سے محروم نظر آتاہے۔ یہ کہنا کہ ان کی کتب ایک ہزار سے بھی زائد ہیں' انتہائی مضحکہ خیز قول ہے۔
    ان کی مشہور تصنیف جسے کتاب کہا جاسکتا ہے' فتاویٰ رضویہ ہے۔ باقی چھوٹے چھوٹے رسالے ہیں۔ فتاویٰ رضویہ کی آٹھ جلدیں ہیں' ہر ایک جلد مختلف فتاویٰ پر مبنی چھوٹے چھوٹے رسائل پر مشتمل ہے۔
    بریلوی حضرات نے اپنے قائد و مؤسس کی تصانیف کی تعداد بڑھانے کے لیے اس میں مندرج رسائل کو مستقل تصانیف ظاہر کیا ہے۔ نمونے کے طور پر ہم فتاویٰ رضویہ کی پہلی جلد میں مندرج رسائل کو شمار کرتے ہیں۔ اس میں 31 رسائل موجود ہیں' جنہیں کتب ظاہر کیا گیا ہے۔۔۔۔ ان کے ا سماء درج ذیل ہیں:
    حسن النعم ۔
    باب العقائد۔
    قوانین العلمائ
    الجدالسعید
    مجلی الشمعۃ
    تبیان الوضوء
    الدقنہ والتبیان
    النہی النمیر
    الظفرلقول زفر
    المطرالسعید
    لمع الاحکام
    المعلم الطراز
    نبہ القوم
    اجلی الاعلام
    الاحکام والعلل
    الجود الحلود
    تنویر القندیل
    آخر مسائل
    النمیقۃ الانقی
    رجب الساعۃ
    ہبۃ الحمیر
    مسائل اخر
    افضل البشر
    بارق النور
    ارتفاع الحجب
    الطررس المعدل
    الطلبۃ البدیعۃ
    برکات الاسمائ
    عطاء النبی
    النوروالنورق
    سمع النذر
    چند سو صفحات پر مشتمل ایک جلد میں موجود 31 رسائل کو بریلوی حضرات نے اپنے اعلیٰ حضرت کی31 تصنیفات ظاہر کیا ہے۔86
    یہ کہہ دینا کہ فلاں شخص نے ایک ہزار ' دوہزار یا اس سے بھی زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں ' سہل ہے۔۔۔مگر اسے ثابت کرنا آسان نہیں۔ بریلوی حضرات بھی اسی مخمصے کا شکار نظر آتے ہیں۔
    خود اعلیٰ حضرت فرمارہے ہیں کہ ان کی کتابوں کی تعداد 200 کے قریب ہے۔87
    ان کے ایک صاحبزادے کہہ رہے ہیں کہ 400 88کے لگ بھگ ہیں۔89
    ان کے ایک خلیفہ ظفر الدین بہاری رضوی جب ان تصنیفات کو شمار کرنے بیٹھے' تو350 رسالوں سے زیادہ نہ گنواسکے۔90
    ایک اور صاحب نے 548 تک تصنیفات شمار کیں۔91
    اب ذرا یہ لطیفہ بھی سن لیجئے کہ انہوں نے کس طرح یہ تعداد پوری کی ہے۔ انوار رضا میں ان کی جو تصانیف شمار کی ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہاں ذکر کی جاتی ہیں' تاکہ قارئین پر کثرت تصانیف کے دعوے کا سربستہ راز منکشف ہوسکے۔
    حاشیہ صحیح بخاری۔ حاشیہ صحیح مسلم۔ حاشیہ النسائی۔ حاشیہ ابن ماجہ۔ حاشیہ التقریب۔ حاشیہ مسند امام اعظم۔ حاشیہ مسند احمد۔ حاشیہ الطحاوی۔ حاشیہ خصائص کبری۔ حاشیہ کنز العمال۔ حاشیہ کتاب الاسماء والصفات۔ حاشیہ الاصابہ۔ حاشیہ موضوعات کبیر۔ حاشیہ شمس بازعہ۔ حاشیہ عمدۃ القاری۔ حاشیہ فتح الباری۔ حاشیہ نصب الرایہ۔ حاشیہ فیض القدیر۔ حاشیہ اشعۃ اللمعات۔ حاشیہ مجمع بحار الانوار۔ حاشیہ تہذیب التہذیب۔ حاشیہ مسامرہ ومسابرہ۔ حاشیہ تحفۃ الاخوان۔ حاشیہ مفتاح السعادۃ۔ حاشیہ کشف الغمہ۔ حاشیہ میزان الشریعۃ۔ حاشیہ الہدایہ۔ حاشیہ بحرالرائق۔ حاشیہ منیۃ المصلی۔ حاشیہ رسائل شامی۔ حاشیہ الطحطاوی۔ حاشیہ فتاوی خانیہ۔ حاشیہ فتاوی خیراتیہ۔ حاشیہ فتاوی عزیزیہ۔ حاشیہ شرح شفا۔ حاشیہ کشف الظنون۔ حاشیہ تاج العروس۔ حاشیہ الدر المکنون۔ حاشیہ اصول الہندسہ۔ حاشیہ سنن الترمذی۔ حاشیہ تیسیر شرح جامع الصغیر۔ حاشیہ کتاب الاثار۔ حاشیہ سنن دارمی۔ حاشیہ ترغیب والترہیب۔ حاشیہ نیل الاوطار۔ حاشیہ تذکرۃ الحفاظ۔ حاشیہ ارشاد الساری۔ حاشیہ مرعاۃ المفاتیح۔ حاشیہ میزان الاعتدال۔ حاشیہ العلل المتناہیہ۔ حاشیہ فقہ اکبر۔ حاشیہ کتاب الخراج۔ حاشیہ بدائع الصنائع۔ حاشیہ کتاب الانوار۔ حاشیہ فتاوی عالمگیری۔ حاشیہ فتاوی بزازیہ۔ حاشیہ شرح زرقانی۔ حاشیہ میزان الافکار۔ حاشیہ شرح چغمینی۔
    یعنی وہ تمام کتب جو احمد رضا صاحب کے پاس تھیں اور ان کے زیر مطالعہ رہتیں' اور انہوں نے ان کتب کے چند صفحات پر تعلیقاً کچھ تحریر کیا' ان کتابوں کو بھی اعلیٰ حضرت صاحب کی تصنیفات شمار کیا گیا ہے۔
    اس طرح تو کسی شخص کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کی تصنیفات ہزاروں ہیں۔
    میری لائبریری میں پندرہ ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ فرق سے متعلقہ ہزاروں کتب میرے زیر مطالعہ رہ چکی ہیں۔ خود البریلویہ کی تصنیف کے لیے میں نے 300 سے زائد کتب و رسائل کا مطالعہ کیا ہے۔
    اور تقریباً ہر کتاب کے حاشیہ پر تعلیقات بھی لکھی ہیں۔ اس حساب سے میری تصنیفات ہزاروں سے متجاوز ہوجاتی ہیں۔
    اگر معاملہ یہی ہو تو اس میں فخر کی بات کون سی ہے؟ آخر میں پھر ہم اس سلسلے میں بریلوی حضرات کے متضاد اقوال کو دہراتے ہیں۔ خود احمد رضا صاحب فرماتے ہیں کہ ان کی کتب کی تعداد 200 ہے .92
    ان کے ایک خلیفہ کا ارشاد ہے 350 ہے۔93
    بیٹے کا قول 400 ہے۔94
    انوار رضا کے مصنف کہتے ہیں 548 ہے .95
    بہاری صاحب کا کہنا ہے 600 ہے.96
    ایک صاحب کا فرمان ہے کہ ایک ہزار ہے۔97
    اعلیٰ حضرت کی تمام وہ کتب و رسائل جو آج تک چھپی ہیں' ان کی تعداد 125 سے زائد نہیں۔98
    اور یہ وہی ہیں جن کے مجموعے کا نام فتاویٰ رضویہ ہے۔ یہاں ہم بریلوی حضرات کی ایک اور کذب بیانی نقل کرتے ہیں۔ مفتی برہان الحق قادری کہتے ہیں :
    "اعلیٰ حضرت کے مجدد ہونے کی شہادت آپ کا مجموعہ فتاوی ہے' جو بڑی تقطیع کی بارہ جلدوں میں ہے اور ہر جلد میں ایک ہزار صفحات سے زائد ہیں۔99
    اس بات سے قطع نظر کہ ان فتاوی کی علمی وقعت کیا ہے' ہم ان کی کذب بیانی کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں۔
    اولاً' یہ کہنا کہ اس کی بارہ جلدیں ہیں' سراسر غلط ہے۔ اس کی صرف آٹھ جلدیں ہیں۔
    ثانیاً' بڑی تقطیع کی صرف ایک جلد ہے۔ تمام جلدوں کے متعلق کہنا کہ وہ بڑی تقطیع کی ہیں' یہ بھی واضح جھوٹ ہے۔
    ثالثاً ' ان میں سے کوئی بھی ایک ہزار صفحات پر مشتمل نہیں ہے۔ بڑی تقطیع والی جلد کے کل صفحات 264 ہیں ' باقی جلدوں کے صفحات پانچ چھ سو صفحات سے زیادہ نہیں۔ بہرحال ایک ہزار صفحات کسی جلد کے بھی نہیں ہیں۔
    ہم نے تصنیفات کے موضوع کو اس قدر تفصیل سے اس لیے ذکر کیا ہے ' تاکہ معلوم ہوسکے کہ بریلوی حضرات جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی تعریف و توصیف میں کس قدر مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔
    یہ بات قابل ذکر ہے کہ فتاویٰ نویسی میں جناب احمد رضا اکیلے نہ تھے' بلکہ ان کے متعدد معاونین بھی تھے۔ ان کے پاس استفتاء کی شکل میں سوال آتے تو وہ ان کا جواب اپنے معاونین کے ذمے لگادیتے۔ جناب بریلوی اپنے معاونین کو دوسرے شہروں میں بھی بھیجتے۔100
    ظفر الدین بہاری نے اپنے اعلیٰ حضرت کا ایک خط بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے' جو اس موضوع کو سمجھنے میں کافی ممد ومعاون ثابت ہوسکتا ہے۔ جناب احمد رضا صاحب اپنے کسی ایک معاصر کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں:
    "تفسیر روح المعانی کون سی کتاب ہے' اور یہ آلوسی بغدادی کون ہیں؟ اگر ان کے حالات زندگی آپ کے پاس ہوں تو مجھے ارسال کریں۔ نیز مجھے "المدارک" کی بعض عبارتیں بھی درکار ہیں!101
    کسی اور مسئلے کا ذکر کر کے ایک اور خط میں لکھتے ہیں:
    "مجھے درج ذیل کتب کی فلاں مسئلے کے متعلق پوری عبارتیں درکار ہیں۔ اگر آپ کے پاس ہوں تو بہت بہتر' ورنہ پٹنہ جاکر ان کتابوں سے عبارتیں نقل کرکے ارسال کردیں۔ کتب درج ذیل ہیں:
    فتاوی تاتار خانیہ۔ زاد المعاد۔ عقد الفرید۔ نزہۃ المجالس۔ تاج العروس۔ قاموس۔ خالق زمخشری۔ مغرب مطرزی۔ نہایہ ابن الاثیر۔ مجمع البحار۔ فتح الباری۔ عمدۃ القاری۔ ارشاد الساری۔ شرح مسلم نووی۔ شرح شمائل ترمذی۔ السراج المنیر۔ شرح جامع الصغیر۔102
    بہرحال گزشتہ تمام نصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب احمد رضا تنہا فتوی نویسی نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ان کے بہت سے معاونین بھی تھے' جو مختلف سوالات کا جواب دیتے۔ اور ان کے اعلیٰ حضرت انہیں پنی طرف منسوب کرلیتے۔



    حوالہ جات

    80 مقدمہ الدولۃ المکیہ مصنفہ احمد رضا بریلوی مطبوعہ لاہور
    81 ایضاً
    82 المجل المعدد لتالیفات المجدد از ظفرالدین بہاری
    83 ایضاً
    84 حیات البریلوی ص ١٣
    85 من ھو احمد رضا ص ٢٥
    86 ملاحظہ ہو المجمل المعدد لتالیفار المجدد
    87 الدولۃ المکیہ ص ١٠
    88 یعنی چند صفحات پر مشتمل چھوٹے رسالے
    89 الدولۃ المکیہ ص ١١
    90 ملاحظہ ہو المجمل المعدد
    91 انوار رضا ص ٣٢٥
    92 الدولۃ المکیہ ص١
    93 المجمل المعدد
    94 الدولۃ المکیہ ٣٢٣
    95 الدولۃ المکیہ ٣٢٣
    96 حیات اعلیٰ حضرت ص ١٣
    97 ضمیمہ المعتقد المتقلد ایضاً من ہو احمد رضا ص ٢٥
    98 انوار رضا ص ٣٢٥
    99 اعلیٰ حضرت بریلوی از بستوی ص ١٨٠
    100 ملاحظہ ہو حیات اعلیٰ حضرت ص ٢٤٤
    101 حیات اعلیٰ حضرت ص ٢٦٦
    102 ایضاً ص ٢٨١



    توحید ڈاٹ کام - کتاب و سنت کی پکار
    http://www.tohed.com/

  7. #7
    Student sudes_102's Avatar
    Join Date
    Jul 2009
    Location
    Islamabad
    Posts
    1,521

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    جہاد کی مخالفت اور استعمار کی حمایت


    جناب بریلوی کا دور استعمار کا دور تھا۔ مسلمان آزمائش میں مبتلا تھے' ان کا عہد اقتدار ختم ہوچکا تھا۔ انگریز مسلمانوں کو ختم کردینا چاہتے تھے علماء کو تختہ دار پر لٹکایا جارہا تھا' مسلمان عوام ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے تھے اور ان کی جائیدادیں ضبط کی جارہی تھیں' انہیں کالا پانی اور دوسرے عقوبت خانوں میں مختلف سزائیں دی جارہی تھیں۔، ان کی شان و شوکت اور رعب ودبدبہ ختم ہوچکا تھا۔ انگریز مسلمان امت کے وجود کو بر صغیر کی سر زمین سے مٹا دینا چاہتے تھے،۔ اس دور میں اگر کوئی گروہ ان کے خلاف صدا بلند کررہا تھا اور پوری ہمت و شجاعت کے ساتھ جذبہ جہاد سے سرشار ان کا مقابلہ کررہا تھا' تو وہ وہابیوں کا گروہ تھا۔103
    (وہابی کا لفظ سب سے پہلے اہل حدیث حضرات کے لئے انگریز نے استعمال کیا' تاکہ وہ انہیں بدنام کرسکیں۔ وہابی کا لفظ باغی کے معنوں میں ہوتا تھا۔ بلاشبہ وہابی انگریز کے باغی تھے)
    انہوں نے علم جہاد بلند کیا' اپنی جائیدادیں ضبط کروائیں' کالا پانی کی سزائیں برداشت کیں' دارورسن کی عقوبتوں سے دوچار ہوئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا' مگر انگریزی استعمار کو تسلیم کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ اس دور کے وہابی چاہتے تھے کہ برصغیر میں مسلمان سیاسی و اقتصادی طور پر مضبوط ہوجائیں۔
    اس وقت ضرورت تھی اتفاق و اتحاد کی' مل جل کر جدوجہد کرنے کی' ایک پرچم تلے متحد ہوکر انگریزی استعمار کو ختم کرنے کی۔ مگر استعمار یہ نہ چاہتا تھا۔ وہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا کرنا چاہتا تھا۔ وہ مسلمانوں کو باہم دست و گریبان دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اسے چند افراد درکار تھے' جو اس کے ایجنٹ بن کر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالیں' انہیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کردیں اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے ان کی قوت و شوکت کو کمزور کردیں۔ اس مقصد کے لئے انگریز نے مختلف اشخاص کو منتخب کیا' جن میں مرزا غلام احمد قادیانی104 اور جناب بریلوی کے مخالفین کے مطابق احمد رضا خان بریلوی صاحب سر فہرست تھے۔105
    مرزا غلام احمد قادیانی کی سرگرمیاں تو کسی سے مخفی نہیں' مگر جہاں تک احمد رضا صاحب کا تعلق ہے' ان کا معاملہ ذرا محتاج وضاحت ہے۔ جناب احمد رضا بریلوی صاحب نے استعمار کے مخالفین وہابی حضرات کو سب و شتم اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ ان وہابیوں کو ' جو انگریز کے خلاف محاذ آراء تھے اور ان کے خلاف جہاد میں مصروف تھے' انگریز کی طرف سے ان کی بستیوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ 106صرف بنگال میں ایک لاکھ وہابی علماء کو پھانسی کی سزا دی گئی۔107
    انگریز مصنف ہنٹر نے اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اپنی کتاب Indian Muslims میں کہا ہے:
    "ہمیں اپنے اقتدار کے سلسلے میں مسلمان قوم کے کسی گروہ سے خطرہ نہیں۔ اگر خطرہ ہے تو صرف مسلمانوں کے ایک اقلیتی گروہ وہابیوں سے ہے۔ کیونکہ صرف وہی ہمارے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں!108
    جنگ آزادی 1857ء کے بعد وہابیوں کے تمام اکابرین کو پھانسی کی سزا دی گئی۔109
    1863ء کا عرصہ ان کے لیے نہایت دشوار تھا۔ اس عرصے میں انگریز کی طرف سے ان پر جو مظالم ڈھائے گئے' ہندوستان کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔
    وہابی علماء میں سے جن کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا' ان میں مولانا جعفر تھانیسری' مولانا عبدالرحیم' مولانا عبد الغفار' مولانا یحیی علی صادق پوری' مولانا احمد اللہ اور شیخ الکل مولانا نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہم سر فہرست ہیں۔
    وہابی مجاہدین کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم جاری کردیا گیا۔110
    وہابیوں کے مکانوں کو مسمار کردیا گیا اور ان کے خاندانوں کی قبروں تک کو اکھیڑ دیا گیا۔111 ان کی بلڈنگوں پر بلڈوزر چلادیے گئے۔112 وہابی علماء کو گرفتار کرکے انہیں مختلف سزائیں دی گئیں۔ اس ضمن میں شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی گرفتاری کا واقعہ بہت مشہور ہے۔113
    ان وہابیوں کے خلاف زبان استعمال کرنے کے لیے اور "فرق تسد" یعنی "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی مشہور انگریزی پالیسی کو کامیاب کرنے کے لیے استعمار نے جناب احمد رضا صاحب کو استعمال کیا' تاکہ وہ مسلمانوں میں افتراق وانتشار کا بیج بو کر ان کے اتحاد کو ہمیشہ کے لیے پارہ پارہ کردیں۔
    اور عین اس وقت جب کہ انگریز کے مخالفین ان کی حکومت سے نبرد آزما تھے اور جہاد میں مصروف تھے' جناب احمد رضا نے ان جملہ مسلم راہنمایان کا نام لے کر ان کی تکفیر کی' جنہوں نے آزادی کی تحریک کے کسی شعبے میں بھی حصہ لیا۔114
    وہ جماعتیں جنہوں نے تحریک آزادی ہند میں حصہ لیا' ان میں وہابی تحریک کے علاوہ جمیعت علمائے ہند' مجلس احرار' تحریک خلافت' مسلم لیگ' نیلی پوش مسلمانوں میں سے اور آزاد ہند فوج خاص ہندوؤں میں سے اور گاندھی کی کانگرس قابل ذکر ہیں۔
    جناب بریلوی آزادی ہند کی ان تمام تحریکوں سے نہ صرف لاتعلق رہے' بلکہ ان تمام جماعتوں اور ان کے اکابرین کی تکفیر و تفسیق کی۔ ان کے خلاف سب وشتم میں مصروف رہے اور ان میں شمولیت کو حرام قرار دیا۔
    جناب احمد رضا تحریک خلافت کے دوران ہی وفات پاگئے' ان کے بعد ان کے جانشیوں نے ان کے مشن کو جاری رکھا اور وہابیوں کے علاوہ مسلم لیگ کی شدید مخالفت کی اور لیگی زعماء کے کافر و مرتد ہونے کے فتوی جاری کیے اور اس طرح انہوں نے بالواسطہ طور پرانگریزی استعمار کے ہاتھ مضبوط کیے۔ جناب احمد رضا کی سرپرستی میں بریلوی زعماء نے مسلمانوں کو ان تحریکوں سے دور رہنے کی تلقین کی اور جہاد کی سخت مخالفت کی۔ چونکہ شرعاً جہاد آزادی کا دارومدار ہندوستان کے دارالحرب ہونے پر تھا اور اکابرین ملت اسلامیہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دے چکے تھے' احمد رضا خاں صاحب نے اس بنا پر جہاد کو منہدم کرنے کے لیے یہ فتوی دیا کہ ہندوستان دارالاسلام ہے۔ اور اس کے لیے بیس صفحات پر مشتمل ایک رسالہ ]اعلام بان ھندوستان دارالاسلام[ یعنی"اکابرین کو ہندوستان کے دارالاسلام ہونے سے آگاہ کرنا" تحریر کیا۔
    جناب احمد رضا خاں صاحب نے اس رسالے کے شروع میں جس چیز پر زور دیا' وہ یہ تھا کہ وہابی کافر مرتد ہیں۔ انہیں جزیہ لے کر بھی معاف کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح نہ انہیں پناہ دینا جائز' نہ ان سے نکاح کرنا' نہ ان کا ذبیحہ جائز' نہ ان کی نماز جنازہ جائز' نہ ان سے میل جول رکھنا جائز' نہ ان سے لین دین جائز' بلکہ ان کی عورتوں کو غلام بنایا جائے اور ان کے خلاف سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔اور آخر میں لکھتے ہیں:
    ( قاتلھم اللہ انّی یوفکون ) یعنی "خدا انہیں غارت کرے وہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں۔115
    یہ رسالہ جناب احمد رضا کی اصلیت کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس سے ان کے مکروہ عزائم کھل کر سامنے آجاتے ہیں کہ وہ کس طرح مجاہدین کی مخالفت کرکے انگریز استعمار کی حمایت و تائید کررہے تھے۔ اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر دشمنان دین و ملت کا دست بازو بن چکے تھے۔
    جس وقت دنیا بھر کے مسلمان ترکی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر انگریزوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے تھے اور مولانا محمد علی جو ہر رحمہ اللہ اور دوسرے اکابرین کی زیر قیادت خلافت اسلامیہ کے تحفظ و بقاء کے لیے انگریزوں سے جنگ لڑرہے تھے' عین اس وقت جناب احمد رضا انگریزوں کے مفاد میں جانے والی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
    بلاشبہ تحریک خلافت' انگریزوں کو ان کی بدعہدی پر سزا دینے کے لیے نہایت موثر ثابت ہورہی تھی۔ تمام مسلمان ایک پرچم تلے جمع ہوچکے تھے۔ علماء و عوام اس تحریک کی حمایت کررہے تھے۔ خود ایک بریلوی مصنف اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
    "1918ء میں جنگ عظیم ختم ہوئی' جرمنی اور اس کے ساتھیوں ترکی آسٹریا وغیرہ کو شکست ہوئی' ترکوں سے آزادی ہند کے متعلق ایک معاہدہ طے پایا۔ لیکن انگریزوں نے بدعہدی اور وعدہ خلافی کی' جس سے مسلمانوں کو سخت دھچکا لگا۔ چنانچہ وہ بپھر گئے اور ان کے خلاف ہوگئے۔ اہل سیاست اس فکر میں تھے کہ کسی ترکیب سے انگریزوں کو وعدہ خلافی کی سزا دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ خلافت اسلامیہ کا تحفظ فرائض و واجبات میں سے ہے۔ بس پھر کیا تھا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔116
    اور حقیقتاً تحریک خلافت انگریزوں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہورہی تھی۔ مسلمان انگریزوں کے خلاف متحد ہوچکے تھے۔ قریب تھا کہ یہ تحریک انگریزی سلطنت کے خاتمہ کا باعث بن جاتی۔ اس امر کی وضاحت اہل حدیث جید عالم دین امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے۔117
    مگر بریلوی مکتب فکر کے امام و مجدد نے انگریزوں کے خلاف چلنے والی اس تحریک کے اثرات و نتائج کو بھانپتے ہوئے انگریزوں سے دوستی کا ثبوت دیا اور تحریک خلافت کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک دوسرا رسالہ "دوام العیش" کے نام سے تالیف کیا' جس میں انہوں نے واضح کیا کہ چونکہ خلافت شرعیہ کے لیے قریشی ہونا ضروری ہے' اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ترکوں کی حمایت ضروری نہیں' کیونکہ وہ قریشی نہیں ہیں۔ اس بنا پر انہوں نے انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی اس تحریک کی بھرپور مخالفت کی اور انگریزی استعمار کی مضبوطی کا باعث بنے۔
    احمد رضاخاں صاحب تحریک خلافت کے مسلم زعماء کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے رقمطراز ہیں:
    "ترکوں کی حمایت تو محض دھوکے کی ٹٹی ہے۔ اصل مقصود یہ ہے کہ خلافت کا نام لو۔ عوام بپھریں' خوب چندہ ملے اور گنگا و جمنا کی مقدس سر زمینیں آزاد ہوں۔118"
    جناب احمد رضا نے تحریک ترک موالات کی بھی شدید مخالفت کی۔ کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ یہ تحریک انگریز کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔
    تحریک ترک موالات کا مقصود یہ تھا کہ انگریزوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ انہیں ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی نہ کی جائے' اس کے تحت چلنے والے سرکاری محکموں میں ملازمت نہ کی جائے، غرضیکہ ان کی حکومت کو یکسر مسترد کردیا جائے' تاکہ وہ مجبور ہوکر ہندوستان کی سرزمین سے نکل جائیں۔ اس مقصد کے لیے تمام مسلمانوں نے 1920ء میں متحد ہوکر جدوجہد شروع کردی۔ جس سے انگریز حکومت کے خلاف ایک فتنہ کھڑا ہوگیا اور وہ متزلزل ہونے لگی۔ اس تحریک کو گاندھی کے علاوہ جناب احمد رضا نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اور ایک رسالہ تحریر کرکے اس کی سختی سے ممانعت کی اور اس تحریک کے سرکردہ راہنماؤں کے خلاف کفر کے فتوے صادر کیے۔
    چنانچہ وہ اس مقصد کے لیے تحریر کئے گئے رسالے (والمحجتہ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنۃ) میں اعتراف کرتے ہیں۔
    "اس تحریک کا ہدف انگریز سے آزادی کا حصول ہے"۔119
    نیز اس رسالے میں جہاد کی مخالفت کرتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں :
    "ہم مسلمانان ہند پر جہاد فرض نہیں ہے۔ 120اور جو اس کی فرضیت کا قائل ہے' وہ مسلمانوں کا مخالف ہے اور انہیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔121
    نیز لکھتے ہیں:
    حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے جہاد سے استدلال کرنا جائز نہیں' کیونکہ ان پر جنگ مسلط کی گئی تھی۔ اور حاکم وقت پر اس وقت تک جہاد فرض نہیں' جب تک اس میں کفار کے مقابلے کی طاقت نہ ہو۔ چنانچہ ہم پرجہاد کیسے فرض ہوسکتا ہے' کیونکہ ہم انگریز کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔122"
    مسلمانوں کو جہاد و قتال' نیز انگریز سے محاذ آرائی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    " یا ایھا الذین اٰمنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا ھتدیتم "
    یعنی"اے ایماندارو' تم اپنے آپ کے ذمہ دار ہو۔ کسی دوسرے شخص کا گمراہ ہونا تمہارے لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتا' بشرطیکہ تم خود ہدایت پر گامزن ہو۔123
    یعنی ہر مسلمان انفرادی طور پر اپنی اصلاح کرے' اجتماعی جدوجہد کی کوئی ضرورت نہیں!
    اور اپنے رسالہ کے آخر میں ان تمام راہنماؤں پر کفر کا فتوی لگایا ہے ' جو انگریزی استعمار کے مخالف اور تحریک ترک موالات کے حامی تھے۔124
    جناب احمد رضا نے جہاد کے منہدم کرنے کا فتوی اپنے رسالے "دوام العیش" میں بھی دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
    "مسلمانان ہند پر حکم جہاد و قتال نہیں!125
    بہرحال احمد رضا صاحب کے متعلق مشہور ہوگیا تھا کہ وہ استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ اور ہر اس تحریک کے مخالف ہیں' جو انگریزوں کے خلاف چلائی جاتی ہے۔
    بریلوی اعلٰی حضرت کے ایک پیروکار لکھتے ہیں:
    "مسلمان احمد رضا سے بد ظن ہوگئے تھے۔126"
    ایک اور مصنف لکھتا ہیں:
    "مسئلہ خلافت سے ان کو اختلاف تھا۔ انتقال کے قریب ان کے خلاف مسلمانوں میں بہت چرچا ہوگیا تھا اور ان کے مرید اور معتقد اختلاف خلافت کے سبب ان سے برگشتہ ہوگئے تھے۔127
    بہرحال عین اس وقت' جب کہ مسلمانوں کو متحد ہو کر انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت تھی' جناب احمد رضا خاں صاحب انگریزوں کے مفاد کے لیے کام کررہے تھے۔
    اگر یہ نہ بھی کہا جائے کہ احمد رضا خاں صاحب انگریز کے ایجنٹ تھے' تب بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کی تمام تر سرگرمیاں مسلمانوں کے خلاف اور انگریز کے مفاد میں تھیں۔ کیونکہ انہوں نے مجاہدین کی تو مخالفت کی' مگر انگریز کے حامی و موید رہے۔
    مشترق فرانسس رابنس نے جناب احمد رضا صاحب کے متعلق لکھا ہے:
    احمد رضا بریلوی انگریزی حکومت کے حامی رہے۔انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں بھی انگریزی حکومت کی حمایت کی۔ اسی طرح وہ تحریک خلافت میں 1921ء میں وہ انگریز کے حامی تھے۔ نیز انہوں نے بریلی میں ان علماء کی کانفرنس بھی بلائی' جو تحریک ترک موالات کے مخالف تھے۔
    یہ تھے جناب احمد رضا اور ان کی سر گرمیاں!128



    حوالہ جات

    103 وہابی کا لفظ سب سے پہلے اہل حدیث حضرات کے لئے انگریز نے استعمال کیا'تاکہ وہ انہیں بدنام کرسکیں وہابی کا لفظ باغی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا ۔ بلاشبہ وہابی انگریز کے باغی تھے
    104 اس ثبوت کے لئے ہماری کتاب القادیانیہ ملاحظہ کیجئے!
    105 اس کے لیے ملاحظہ ہو کتب' بریلوی فتوے'تکفیری افسانے'آئینہ صداقت' مقدمہ الشہاب الثاقب'مقدمہ رسائل چاند پوری ''فاضل بریلوی '' وغیرہ
    106 تذکرہ صادق از عبدالرحیم
    107 ملاحظہ ہو کتاب (Wahabi Trils)
    108 انڈین مسلم ص ٣٢
    109 تاریخ اہلحدیث کے متعلق ہم ایک مستقل رسالہ تصنیف کریں گے.یہ علامہ مرحوم کے مستقبل کے عزائم میں شامل تھا'لیکن بہت سے دوسرے منصوبوں کی طرح ی بھی نامکمل رہ گیا۔ ان اللہ فعال لما یرید
    110 وہابی تحریک ص ٢٩٢
    111 تذکرہ صادقہ۔
    112 ایضاً
    113 وہابی تحریک ٣١٥۔
    114 تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو اس کتاب کا باب ''بریلویت اور تکفیری افسانے علاوہ ازیں ان کتابوں کی طرف رجوع کیجئے: آئینہ صداقت' مقدمہ شہاب ثاقب' مقدمہ رسائل چاند پوری'فاضل بریلوی از مسعود احمد بریلوی۔
    115 ملاحظہ ہو اعلام بان ہندوستان دارالاسلام ص ١٩'٢٠۔
    116 مقدمہ دوام العیش از مسعود احمد ص ١٥۔
    117 ایضاً ص ١٧۔
    118 دوام العیش ص ٦٣ مطبوعہ بریلی و ص ٩٥ مطبوعہ لاہور۔
    119 المحبتہ الموتمنتہ از احمد رضا ص ١٥٥۔
    120 مرزا غلام احمد قادیانی کا بھی یہی فتویٰ تھا۔
    121 المحبتہ الموتمنتہ ص ٢١٠۔
    122 المحبتہ الموتمنتہ ص ٢٠٦
    123 ملاحظہ ہو خاتمۃ الکتاب ص ٢١١۔
    124 دوام العیش ص ٤٦۔
    125 مقدمہ دوام العیش ص ١٨۔
    126مقدمہ دوام العیش مقالہ حسن نظامی ص ٢'از مقدمہ
    دوام العیش ص ١٨۔
    127 (Indian Muslims) ص ٤٤٣ مطبوعہ کیمرج یونیورسٹی ١٩٧٤۔
    128 وصایا شریف ص ١٠ ترتیب حسنین رضا مطبوعہ ہند۔


    توحید ڈاٹ کام - کتاب و سنت کی پکار
    http://www.tohed.com/

  8. #8
    Student sudes_102's Avatar
    Join Date
    Jul 2009
    Location
    Islamabad
    Posts
    1,521

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    جناب بریلوی کی وفات

    جناب بریلوی کی موت ذات الجنب کے مرض سے واقع ہوئی۔ مرتے وقت انہوں نے چند وصیتیں کیں ' جو "وصایا شریف" کے نام سے ایک رسالے میں شائع ہوئیں۔
    احمد رضا خاں صاحب نے مرتے وقت کہا :
    "میرا دین و مذہب' جو میری کتب سے ظاہر ہے' اس مضبوطی سے قائم رہنا ہر فرض سے اہم فرض ہے۔129
    نیز انہوں نے کہا:
    "پیارے بھائیو! مجھے معلوم نہیں' میں کتنے دن تمہارے اندر ٹھہروں۔ تم مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھولی بھالی بھیڑیں ہو۔ بھیڑئیے تمہارے چاروں طرف ہیں' جو تم کو بہکانہ چاہتے ہیں اور فتنے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان سے بچو اور دور بھاگو۔ مثلا دیوبندی وغیرہ!130
    اور وصیت کی آخر میں کہا:
    "اگر بطیّب خاطر ممکن ہو تو فاتحہ میں ہفتہ میں دو تین بار ان اشیاء سے بھی کچھ بھیج دیا کریں:
    دودھ کا برف خانہ ساز' اگرچہ بھینس کے دودھ کا ہو۔
    مرغ کی بریانی، مرغ پلاؤ ، خواہ بکری کا شامی کباب، پراٹھے اور بالائی، فیرنی، ارد کی پھریری دال مع ادرک و لوازم، گوشت بھری کچوریاں، سیب کا پانی، انار کا پانی، سوڈے کی بوتل، دودھ کا برف
    اور روزانہ ایک چیز ہوسکے ' یوں کیا کرو ' یا جیسے مناسب جانو۔۔۔۔ پھر حاشیے میں درج ہے:
    "دودھ کا برف دوبارہ پھر بتایا!"
    چھوٹے مولانا نے عرض کیا
    "اسے تو حضور پہلے لکھا چکے ہیں۔"
    فرمایا:
    "پھر لکھو۔ انشاء اللہ مجھے میرا رب صرف برف ہی عطا فرمائے گا۔"
    اور ایسا ہی ہوا کہ ایک صاحب دفن کے وقت بلا اطلاع دودھ کا برف خانہ ساز لے آئے!131
    بریلوی مکتب فکر کے اعلیٰ حضرت کی وفات 25 صفر 1340ھ بمطابق 1921ء 68 برس کی عمر میں ہوئی
    معلوم ہوتا ہے کہ جناب بریلوی کا جنازہ قابل ذکر حاضری سے محروم تھا۔ بہرحال ہم اس سلسلے میں کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ بغیر دلیل کے کوئی حکم لگانا ہم اپنے اسلوب تحریر کے منافی تصور کرتے ہیں۔ تاہم قرائن و شواہد سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام ان کی تلخ لسانی ' بات بات پر تکفیر کے فتووں اورانگریز کی عدم مخالفت کی وجہ سے ان سے متنفر ہوگئے تھے۔132
    اس بات کا اعتراف ایک بریلوی مصنف نے بھی کیا ہے کہ "مسلمان امام احمد رضا سے متنفر ہوگئے تھے" ۔ نیز:
    "ان کے مرید ومعتقد بھی اختلاف خلافت کے سبب ان سے برگزشتہ ہوگئے تھے۔
    ویسے بھی بریلویت کے پیروکار چونکہ اپنے امام و مجدد کے بارے میں بہت زیادہ غلو و مبالغہ کے عادی ہیں' اگر جنازے کی حاضری کسی عام عالم دین کے جنازے کے برابر بھی ہوتی تو ان کی تصانیف اس سلسلے میں مبالغہ آمیز دعووں سے بھری ہوتیں۔۔۔۔۔جب کہ انہوں نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ البتہ بریلوی قوم حاضری کے علاوہ ان کے جنازے کے بارے میں دوسرے چند ایک مبالغوں سے باز نہیں آئی !
    مبالغہ آمیزی
    ایک صاحب لکھتے ہیں:
    "جب جناب احمد رضا صاحب کا جنازہ اٹھایا گیا تو کچھ لوگوں نے دیکھا کہ اسے فرشتوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔" 135
    بستوی صاحب فرماتے ہیں کہ امام احمد رضا کی وفات کے بعد ایک عرب بزرگ تشریف لائے' انہوں نے کہا:
    "25 صفر المظفر 1340ء کو میری قسمت بیدار ہوئی!
    خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حاضر دربار ہیں۔ لیکن مجلس پر ایک سکوت طاری ہے۔ قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا انتظار ہے۔۔ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا (فداک ابی وا می) کس کا انتظار ہے؟
    فرمایا:احمد رضا کا انتظار ہے۔
    میں نے عرض کیا' احمد رضا کون ہیں؟
    فرمایا' " ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں!" بیداری کے بعد مجھے مولانا کی ملاقات کا شوق ہوا۔ میں ہندوستان آیا اور بریلی پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے' اور وہی 25 صفر ان کی تاریخ وصال تھی!136
    بارگاہ رسالت میں بریلوی حضرات نے اپنے امام کی مقبولیت کو ثابت کرنے کے لیے جن من گھڑت واقعات اور دعووں کا سہارا لیا ہے' ان میں سے ایک "وصایا شریف" میں بھی درج ہے وہ (یعنی احمد رضا) آپ کی خوشبوؤں سے بسے ہوئے سدھارے۔137
    یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احمد رضا کو غسل دینے کے لیے خصوصی طور پر آب زمزم اور عطر کسی حاجی کے ہاتھ ارسال کیا تاکہ احمد رضا صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے وقت مدینہ منورہ کی خوشبو سے معطر ہوں۔ العیاذ باللہ!
    اگر مبالغات کا ذکر شروع ہو ہی گیا ہے' تو مناسب ہے کہ چند مزید مبالغہ آمیز اقوال ذکر کردیئے جائیں۔
    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی پر مبنی کسی بریلوی کا قول ہے:
    "میں نے بعض مشائخ کو کہتے سنا ہے' امام احمد رضا کو دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زیارت کا شوق کم ہوگیا۔138
    گزشتہ دو صدی کے اندر کوئی ایسا جامع عالم نظر نہیں آتا۔139"
    ایک اور بریلوی مصنف ارشاد کرتے ہیں:
    "آپ کی علمی جلالت اور علمی کمال کی کوئی نظیر نہیں۔ امام احمد رضا صاحب اپنے علم اور اصابت رائے میں منفرد تھے۔140"
    اور:
    "امام احمد رضا صاحب نے دین کی تعلیمات کو ازسرنو زندہ کیا۔141"
    "فتاویٰ رضویہ میں ہزارہا مسائل142 ایسے ہیں' جن سے علماء کے کان بھی آشنا نہیں۔143"
    "اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ فتاوی رضویہ کو دیکھ لیتے تو اس کے مؤلف کو اپنے جملہ اصحاب میں شامل فرمالیتے۔144"
    ایک دوسرے بریلوی مصنف کا کہنا ہے:
    "امام احمد رضا اپنے دور کے امام ابوحنیفہ تھے۔145"
    ایک اور بریلوی مصنف مبالغہ آراء ہیں:
    امام احمد رضا کے دماغ میں امام ابوحنیفہ کی مجتہدانہ ذہانت ' ابوبکر رازی کی عقل اور قاضی خاں کا حافظہ تھا۔146"
    بریلوی حضرات نے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی توہین کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے امام و مجدد کو "آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری" کا مصداق ٹھہراتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے لکھا ہے:
    "امام احمد رضا حق میں صدیق اکبر کا پر تو' باطل کو چھاٹنے میں فاروق اعظم کا مظہر' رحم وکرم میں ذوالنورین کی تصویر اور باطل شکنی میں حیدری شمشیر تھے۔" معاذ اللہ!147
    اس پر بھی مستزاد:
    "اعلیٰ حضرت معجزات نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک معجزہ تھے۔148"
    قارئین کو علم ہونا چاہئے کہ معجزہ اس خرق عادت شے کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نبی علیہ السلام کے ہاتھوں پر صادر ہو۔ اب یہ بریلوی حضرات ہی بتاسکتے ہیں کہ کیا احمد رضا کی ذات کی پیدائش یا ان کی صفات اور خصائل خلاف عادت تھیں؟ اور پھر چودھویں صدی میں ان کا وجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ کیسے ہوسکتا ہے؟
    جناب بریلوی کے اس معتقد نے تو انہیں معجزہ ہی کہا تھا۔ ان کے ایک اور پیروکار نے تو انہیں واجب الاطاعت نبی کے مقام پر فائز قرار دے دیا۔ وہ کہتے ہیں:
    "اعلیٰ حضرت زمین میں اللہ تعالیٰ کی حجت تھے!149
    اب ظاہر ہے' اللہ تعالیٰ کی حجت تو نبی کی ذات ہی ہوتی ہے۔ بریلوی حضرات سمجھنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر جناب خاں صاحب کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا' ان کی بات کو ٹھکرایا گیا اور ان کی اتباع اور اطاعت سے انکار کیا گیا' تو یہ رب کائنات کی طرف سے پیش کی جانے والی دلیل وحجت کو ٹھکرانے کے مترادف ہوگا۔
    ان تمام مبالغہ آ میز دعووں سے ثابت ہوتا ہے کہ خاں صاحب بریلوی کے متبعین ان کی ذات کو مقدس قرار دینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ ہم گزشتہ صفحات میں یہ بیان کر آئے ہیں کہ بریلوی حضرات اپنے مجدد اعلیٰ حضرت کو غلطیوں سے مبرا اور معصوم عن الخطا سمجھتے ہیں۔ اور بلاشبہ "عصمت" انبیائے کرام علیہ السلام کی خاصیت ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی امتی کو معصوم سمجھنا ختم نبوت سے انکار کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے اور سوء الاعتقادی سے محفوظ رکھے۔ آمین!
    گزشتہ غلو آمیز دعووں کے علاوہ چند اور مبالغات کا ذکر کرکے ہم اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ :
    ساڑھے تین برس کی عمر میں جناب احمد رضا ایک بازار سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے صرف ایک بڑا سا کرتہ زیب تن کیا ہوا تھا سامنے سے طوائفیں آرہی تھیں۔ انہوں نے اپنا کرتہ اٹھایا اور دامن سے آنکھیں چھپالیں۔
    طوائفوں نے کہا"واہ منے میاں! آنکھیں تو چھپالیں مگر ستر ننگا کردیا۔"
    ساڑھے تین برس کی عمر میں بریلویت کے موسس نے جواب دیا: "جب نظر بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے' اور جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے۔150"
    اب ان سے کوئی پوچھے کے ساڑھے تین برس کی عمر میں خاں صاحب کو کیسے علم ہو گیا کہ آنے والی طوائفیں ہیں؟ اور پھر جس بچے نے ابھی ستر ڈھانپنا شروع نہ کیا ہو' اسے نظر اور دل کے بہکنے سے ستر کے بہکنے کا جنسی راز کیسے معلوم ہوگیا؟
    لیکن جھوٹ بولنے کے لیے عقل و خرد کا ہونا تو ضروری نہیں!
    بریلوی حضرات کہتے ہیں :
    "امام احمد رضا کے علمی دبدبے سے یورپ کے سائنسدان اور ایشیا کے فلاسفر لرزتے رہے!151
    نیز:
    "اعلیٰ حضرت کو خداداد قوت حافظہ سے ساری چودہ برس کی کتابیں حفظ تھیں' ان کے بلند مقام کو بیان کرنے کے لیے اہل لغت لفظ پانے سے عاجز رہے ہیں۔152"
    نیز:
    اعلیٰ حضرت جب حج کے لیے تشریف لے گئے' تو انہیں مسجد خیف میں مغفرت کی بشارت دی گئی۔153"
    بریلوی شاعر ایوب علی رضوی اپنے قصیدہ میں کہتا ہے

    اندھوں کو بینا کردیا بہروں کو شنوا کردیا
    دین نبی زندہ کیا یا سیدی احمد رضا
    امراض روحانی و نفسانی امت کے لیے
    در ہے تیرا دارالشفاء یا سیدی احمد رضا
    یا سیدی یا مرشدی یا مالکی یا شافعی
    اے دستگیر راہنما یا سیدی احمد رضا
    جب جان کنی کا وقت ہوا اور رہزنی شیطاں کرے
    حملہ سے اس کے لے بچا یا سیدی احمد رضا
    احمد کا سایہ غوث پر اور تجھ پر سایہ غوث کا
    اور ہم پہ ہے سایہ تیرا یا سیدی احمد رضا
    احمد پہ ہو اب کی رضا احمد کی ہو تجھ پر رضا
    اور ہم پہ ہو تیری رضا یا سیدی احمد رضا154

    ان کے ایک اور شاعر ہرزہ سرا ہیں

    خلق کے حاجت روا احمد رضا
    ہے میرا مشکل کشا احمد رضا
    کون دیتا ہے مجھ کو کس نے دیا؟
    جو دیا تم نے دیا احمد رضا!
    دونوں عالم میں ہے تیرا آسرا
    ہاں مدد فرما شاہ احمد رضا
    حشر میں جب ہو قیامت کی تپش
    اپنے دامن میں چھپا احمد رضا
    جب زبانیں سوکھ جائیں پیاس سے
    جام کوثر کا پلا احمد رضا
    قبر و نشر و حشر میں تو ساتھ دے
    ہو میرا مشکل کشا احمد رضا
    تو ہے داتا اور میں منگتا ترا
    میں ترا ہوں اور تو مرا احمد رضا!155

    یہ تو ہیں جناب بریلوی اور ان کے پیروکار! اور یہ ہیں ان کی پھیلائی ہوئی تعلیمات! غلو مبالغہ آمیزی میں اس قوم کی کوئی نظیر نہیں' ہر آنے والا جانے والے کو اس طرح کی شرکیہ خرافات سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قوم کو راہ راست پر آنے کی توفیق عطا فرمائے!
    خود جناب بریلوی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی شان میں مبالغہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں

    کریں اقطاب عالم کعبہ کا طواف
    کعبہ کرتا ہے طواف در والا تیرا

    اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں

    ملک سخن کی شاہی تو کو رضا مسلم
    جس سمت آگئے ہوسکے بٹھادیے ہیں157

    نیز:
    "میرا سینہ ایک صندوق ہے کہ جس کے سامنے کسی علم کا بھی سوال پیش کیا جائے' فوراً جواب مل جائے گا۔158"
    احمد رضا صاحب ایک طرف تو اپنے بارے میں اس قدر مبالغہ آرائی سے کام لے رہے' اور دوسری طرف اپنے آپ کو دائرہ انسانیت سے خارج کرتے ہوئے نغمہ سرا ہیں

    کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
    تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں159

    مزید:

    تجھ سے در در سگ اور سگ سے مجھ کو نسبت
    میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا160

    ایک مرتبہ خاں صاحب بریلوی کے پیر صاحب نے رکھوالی کے لیے اچھی نسل کے دوکتے منگوائے' تو جناب بریلوی اپنے دونوں بیٹوں کو لیے اپنے پیر صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے:
    "میں آپ کی خدمت میں دو اچھی اور اعلیٰ قسم کے کتے لے کر حاضر ہوا ہوں۔ انہیں قبول فرمالیجئے!161
    تو یہ ہیں جناب احمد رضا خاں بریلوی کی شخصیت کے دونوں پہلو'ایک طرف تو وہ امام' غوث'قطب اور قاضی الحاجات وغیرہ کے القاب سے متصف ہیں۔ اور دوسری طرف شرف انسانیت سے بھی گرے ہوئے ہیں اور انسان کی بجائے ایک ناپاک جانور سے خود کو تشبیہ دینے میں فخر محسوس کررہے ہیں!
    اس باب کے آخر میں ہم بریلوی مذہب کے چند اکابرین کا ذکر کرکے اس باب کو ختم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک نعیم مراد آبادی ہیں۔
    یہ 1883ء میں پیدا ہوئے۔ یہ جناب بریلوی کے ہم عصروں میں سے تھے۔انہوں نے بھی جناب بریلوی کی طرح توحید و سنت کی مخالفت' شرک و بدعت کی حمایت اور غیر شرعی رسم و رواج کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا ایک مدرسہ بھی تھا' جس کا نام شروع میں "مدرسہ اہل السنہ تھا۔ بعد میں تبدیل کرکے "جامعہ نعیمیہ" رکھ دیا گیا۔ اس مدرسے سے فارغ ہونے والے نعیمی کہلاتے ہیں۔ ان کی تالیفات میں "خزائن العرفان" جسے بعد میں جناب احمد رضا خاں صاحب کے ترجمہ قرآن کے ساتھ شائع کیا گیاہے۔۔۔۔۔ "اطیب البیان" 162جو شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کی تصنیف "تقویۃ الایمان" کے جواب میں لکھی گئی' اور الکلمۃ العلیا" قابل ذکر ہیں۔
    ان کی وفات 1948ء میں ہوئی۔163 بریلوی حضرات انہیں "صدر الافاضل" کے لقب سے موسوم کرتے ہیں۔
    بریلوی زعماء میں امجد علی بھی ہیں۔ یہ ہندوستان کے صوبہ اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور مدرسہ حنفیہ جون پور میں تعلیم حاصل کی۔ جناب امجد علی احمد رضا صاحب کے بھی کچھ عرصہ تک زیر تربیت رہے اور ان کے مذہب کی نشرواشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی تصنیف "بہار شریعت" بریلوی فقہ کی مستند کتاب ہے' جس میں احمد رضا صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی احکام و مسائل کی توضیح کی گئی ہے۔
    ان کی وفات 1948ء میں ہوئی۔164
    ان کے اکابرین میں سے دیدار علی بھی ہیں' جو نواب پور میں 1270ھ میں پیدا ہوئے اور احمد علی سہارن پوری سے تعلیم حاصل کی' اور 1293ھ میں فارغ ہونے کے بعد مستقل طور پر لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے:
    "مولانا دیدار علی نے لاہور شہر کو وہابیوں اور دیوبندیوں کے زہریلے عقائد سے محفوظ رکھا۔165 ان کی وفات 1935ء میں ہوئی" ان کی تالیفات میں تفسیر میزان الادیان اور علامات وہابیہ قابل ذکر ہیں۔"
    ان میں حشمت علی بھی ہیں۔ یہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے' ان کے والد سید عین القضاۃ کے مریدوں میں سے تھے۔ یہ جناب بریلوی کے مدرسے منظر اسلام میں زیر تعلیم رہے۔ انہوں نے امجد علی صاحب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1340ھ میں فارغ ہوئے۔ اس طرح انہوں نے احمد رضا صاحب کے بیٹے سے بھی سند لی اور بعد میں جناب بریلوی کی تعلیمات پھیلانے میں مصروف ہوگئے۔ احمد رضا صاحب کے بیٹے نے انہیں "غیظ المنافقین" کے لقب سے نوازا۔1380ھ میں سرطان میں مبتلا ہوئے اور بیلی بھیت میں وفات پائی۔166
    ان کے قائدین میں سے احمد یار نعیمی بھی ہیں۔ یہ بدایون میں 1906ء میں پیدا ہوئے۔ پہلے دیوبندیوں کے مدرسے "المدرسۃ الاسلامیہ" میں پڑھتے رہے' پھر یہ نعیم مراد آبادی کے ہاں چلے گئے اور ان سے تعلیم مکمل کی۔ مختلف شہروں میں گھومنے پھرنے کے بعد گجرات میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور وہاں "جامعہ غوثیہ نعیمیہ" کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اپنی کتاب "جاء الحق" میں جناب بریلوی کے مذہب کی تائید اور متبعین کتاب و سنت کی مخالفت میں کافی زور لگایا ہے۔
    جناب احمد یار نے احمد رضا صاحب کے ترجمہ قرآن پر "نورالعرفان" کے نام سے حاشیہ بھی لکھا ہے جس میں اپنے پیشتر قائدین کی طرح بڑے شدومد سے قرآن کریم کی بہت سی آیات کی تاویل و معنوی تحریف سے کام لیا گیا ہے۔
    اسی طرح ان کی دو معروف کتابیں "رحمۃالالٰہ بوسیلۃ الاولیاء " اور "سلنطنۃ مصطفٰی" بھی ہے۔ ان کی وفات 1971ء میں ہوئی!167
    یہ تھے بریلوی مذہب کے زعماء جنہوں نے اس مذہب کے اصول اور ضوابط وضع کیے اور جناب بریلوی کے لگائے ہوئے پودے کو پروان چڑھایا۔
    اگلے باب میں ہم ان کے عقائد بیان کریں گے۔واللہ الموفق!



    حوالہ جات

    129وصایا شریف ص10 ترتیب حسنین رضا مطبوعہ ہند
    ۔130اعلیٰ حضرت بریلوی از بستوی ص 105۔
    131بستوی9 ، 10۔
    132بستوی ص 111۔
    133مقدمہ دوام العیش از مسعود احمد ص 18
    134ایضاً۔
    135انوار رضا ص 272‘ایضاً روحوں کی دنیا مقدمہ ص 22۔
    136بستوی ص 121‘ فتاویٰ رضویہ جلد 12 المقدمہ ص 13۔
    137وصایا شریف ص 19۔
    138وصایا شریف ص 24 ترتیب حسنین رضا
    ۔139ایضاً۔
    140شرح الحقوق مقدمہ ص 8
    141ایضاً 7۔
    142جی ہاں! احکام و مسائل کے نام پر قصے کہانیوں سے واقعی علماء کے کان آشنا نہیں!۔
    143بہار شریعت جلدا ص3۔
    144مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد 11 ص 4
    145مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد 5۔
    146مقدمہ فتاویٰ رضویہ ص210
    147ایضاً ص 263۔
    148 ایضاً۔
    149ایضاً ص303
    150سوانح اعلیٰ حضرت از بدرالدین ص 110‘و انوار رضا۔
    151روحوں کودنیاص 26۔
    152انوار رضا ص 65۔
    153حیات اعلیٰ حضرت از ظفرالدین بہاری ص 12۔‘ایضاً انوار رضا ص235
    154مدائح اعلیٰ حضرت از ایوب علی رضوی ص5۔
    155نفخۃ الروح از ایوب رضوی ص 47‘48۔
    156حدائق بخشش از بریلوی ص 7۔
    157انوار رضا ص 319و ایضاً حدائق بخشش۔
    158مقدمہ شرح الحقوق ص8۔
    159ایضاً ص 11‘حدائق بخششص 43۔
    160حدائق بخشش ص 5
    161انوار رضا ص 238۔
    162اس کتاب کا ردّ مراد آباد ہی کے اہل حدیث مشہور عالم دین مولانا عزیز الدین مراد آبادی مرحوم نے اپنی کتاب ۔اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان۔ میں کیا ہے۔اور نعیم الدین صاحب کے استدلالات کو باطل ثابت کیا ہے۔
    163ملاحظہ ہو ‘ تذکرہ علمائے اہل سنت اور حیات صدر الافاضل وغیرہ۔
    164حاشیہ الاستمداد ص 90‘91۔
    165ایضاً ص 94‘ تذکرہ علمائے ال سنت 83۔
    166تذکرہ علمائے اہل سنت از محمود بریلوی ص 82 مطبوعہ کانپور۔
    167تذکرہ اکابر اہل السنہ ص 58‘59 از اشرف قادری ‘ الیواقیت المھریہ ص 39‘ سیرۃ سالک از کوکب


    توحید ڈاٹ کام - کتاب و سنت کی پکار
    http://www.tohed.com/

  9. #9
    Student sudes_102's Avatar
    Join Date
    Jul 2009
    Location
    Islamabad
    Posts
    1,521

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    لیجیے یہ تھی احمد رضا صاحب کے صحیح حالات زندگی اور خدمات بریلوی کتابوں کے مکمل حوالاجات کے ساتھ۔
    توحید ڈاٹ کام - کتاب و سنت کی پکار
    http://www.tohed.com/

  10. #10
    iTT Student
    Join Date
    Nov 2010
    Location
    Karachi/Pakistan
    Posts
    96

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    Pochtay hai Yeh Ahmed Raza Kon Hai
    Koi Batlay Humey Kai Hum Batlay Kiya

    Daal di kalb mai Azmate Mustafa
    Sayadi Ala'Hazrat Pai Lakou Salam

    Quote Originally Posted by hydr_khan View Post
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    تصور علم ایک اہم فلسفیانہ تصور ہے جو کسی بھی صاحب فکر کے تصورات کے فہم کے لئے ضروری ہے ، مولانا احمد رضا خاں بریلوی علم کی ضرورت و اہمیت سے واقف تھے ، ان کی اپنی زندگی بچپن سے بڑھاپے تک حصول علم اور اشاعت علم کا نمونہ تھی ۔
    علم کی تعریف :
    مولانا احمد رضا خاں بریلوی علم کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
    علم وہ نور ہے جو شے اس کے دائرہ میں آگئی منکشف ہوگئی اور جس سے متلعق ہوگیا اس کی صورت ہمارے ذہن میں مرتسم ہوگئی ۔

    حقیقی اور اصلی علم :
    جو علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی صورت میں عطا کیا گیا وہی حقیقی اور اصلی علم ہے فرماتے ہیں :
    علم وہ ہے جو مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ہے ۔

    ایک جگہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نقل فرماتے ہیں :

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں علم تین ہیں*قرآن یا حدیث یا وہ چیز جو رہِ وجوب عمل میں ان کی ہمسر ہے اس کے سوا جو کچھ ہے سب فضول ہے

    امام غزالی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ :

    علم حقیقی وہی ہے جو ماسوی اللہ سے تعلق قطع کرکے اللہ سے رشتہ جوڑ*دے اور خلوص*نیت ہی سے حاصل ہوسکتا ہے ، غیر مخلص کا علم ، علم حقیقی نہیں ۔

    ذرائع علم :
    مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مندرجہ ذیل ذرائع علم ہیں ::
    وحی :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وحی الٰہی سب سے اہم ، حتمی اور مستند ذریعہ تعلیم ہے ، اس ذریعہ میں*کسی غلطی اور کذب کی گنجائش نہیں ہے ، انبیاءکرام کے ذریعے سے انسان کوعلم توحید دیاگیا ہے ۔

    ۔الہام :: وحی کے بعد الہام بھی ایک اہم ذریعہ علم ہے ، وحی صرف انبیاء کوہوتی ہے ، مگر الہام غیر انبیاء کو بھی ہوتا ہے اور اس کے لئے صاحب ایمان اور صاحب تقوٰی ہونا ضروری ہے انسان کے دل میں*کسی چیز یا کام کے بارے میں تنبیہ یا اشارہ کردیا جاتا ہے۔

    ۔کشف :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کشف بھی ایک اہم ذریعہ علم ہے ، کسی آدمی پر کسی چیز کے بارے میں*کوئی خیال اچانک بجلی کی چمک کی طرح انسان کے ذہن میں آجاتا ہے ، حقیقت حال آدمی پر ظاہر کردی جاتی ہے ۔

    عقل :: مولانا احمد رضا خاں*کے نزدیک عقل کا درجہ وحی سے کم ہے ، ہر عقلی استدلال اور معاملات کو قرآن و حدیث کے مطابق ہی پرکھا جاتا ہے ، دنیا کی ترقی و خوشحالی ، عالیشان عمارت اور دیگر ریل پیل عقلی کرشمہ سازوں*کی مرہون منت ہے ، عقل کے ذریعے ہی کسی اچھائی برائی کو پرکھا جاسکتا ہے ۔

    ۔حواس خمسہ :: ذرائع علم میں عقل کے بعد حواس خمسہ کا درجہ ہے ، یہ تقریبا ہر انسان کو حاصل ہیں ، آنکھ ، کان ، ناک ، زبان چھونے کے اعضاء حصول علم کے آلات ہیں ، حواس کے ذریعے ہی کسی اچھائی برائی کو پرکھا جاسکتا ہے ۔

    سند :: مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سند بھی علم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے ، آپ کے نزدیک کتب بینی اور افواہ رجال سے بھی علم حاصل ہوتا ہے ، ضرب الامثال اور اقوال زریں سند میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ، افواہ رجال اور کتب بینی سے جو علم حاصل ہوتا ہے یہ وہ باتیں ہوتی ہیں جو کسی کتب کے بھی مستند ، لائق اور معتبر افراد کی کہی جاتی ہیں*۔

    حتمی و قطعی سر چشمہ علم
    مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سب سے حتمی اور قطعی ذریعہ سر چشمہ علم وحی الٰہی ہے اور باقی تمام علوم اور ذرائع کی صداقت کو اسی سر چشمہ علم کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے ، ذرائع علم میں وحی ، الہام ، عقل اور حواس خمسہ کے متعلق آپ کی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیے جس میں ان ذرائع کے مقام و مرتبہ کا صحیح علم ہوتا ہے ۔اللہ عزوجل نے بندے بنائے اور انہیں کان ، آنکھ ہاتھ پاؤں زبان وغیرہ آلات و جوارح عطافرمائے اور انہیں کام میں لانے کا طریقہ الہام کیا اور ان کے ارادے کا تابع و فرمانبردار کردیا کہ اپنے منافع حاصل کریں اور مضرتوں سے بچیں ، پھر اعلٰی درجہ کے شریف جوہر یعنی عقل سے ممتاز فرمایا جس سے تمام حیوانات پر انسان کا درجہ بڑھایا عقل کو ان امور کے ادارک کی طاقت بخشی خیر و شر ، نفع وضرر ، حواس ظاہری نہ پہچان سکتے تھے ، پھر اسے بھی فقط اپنی سمجھ پر بےکس و بےیاور نہ چھوڑا ،ہنوز لاکھوں باتیں ہیں جن کو عقل خود ادراک نہ کرسکتی تھی اور جس کا ادراک ممکن تھا ، ان میں لغزش کرنے ٹھوکریں کھانے سے پناہ کے لئے کوئی زبردست دامن یا پناہ نہ رکھتی تھی ، لہذا انبیاء بھیج کر کتب اتار کر ذراذرا سی بات کا حسن و قبح خوب جتاکر اپنی نعمت تمام و کمال فرمادی ، کسی عذر کی جگہ باقی نہ چھوڑی ۔
    اس عبارت سے صاف ظاہر ہے وحی ، حقیقی اور حتمی سر چشمہ علم ہے اور دیگر ذرائع علم کو وحی کے تابع کرکے استعمال کرنے پر زور دیاگیا ہے ۔

    علم کی اقسام ::
    مولانا احمد رضا علیہ الرحمۃ کے نزدیک علم کے مندرجہ ذیل اقسام ہیں:
    الف ۔ ۔ ۔ ۔ اہمیت و ضرورت کے لحاظ سے علم کی اقسام:

    فرض عین
    فرض کفایہ
    مباح
    مکروہ
    حرام

    1 - علم فرض عین :
    فرض عین علم ایسے علم کو کہتے ہیں جس کا حاصل کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہو۔ اسلام کے بنیادی عقائد و ایمانیات سے آگاہی ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ توحید و رسالت کا اقرار اسلام کا اساسی عقیدہ ہے۔ اجزائے ایمان کے بعد ارکان اسلام اور دیگر احکام شرعیہ کی واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔
    2۔ علم فرض کفایہ :
    وہ علم جو معاشرے کے تمام افراد کیلئے سیکھنا ضروری نہ ہو چند افراد ہی اگر سیکھ لیں تو دوسروں پر گناہ نہیں۔ ان میں فقہ ، تفسیر، حدیث توقیت، جغرافیہ وغیرہ شامل ہیں۔
    3۔ علم مباح:
    ایسا علم جس کا سیکھنا ضروری نہ ہو لیکن اسلام اس کے سیکھنے کی اجازت دیتا ہو اور جس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو تو یہ ایک مباح کام ( جائز کام ) ہوگا۔ مثلاً اشعار اور تاریخ کا علم وغیرہ۔
    4 ۔ مکروہ علم :
    ایسا علم جو وقت کے ضیاء کا باعث ہو اور جس سے فرائض شریعت میں غفلت پیدا ہوتی ہو۔ مثلاً علم ہندسہ، ہیئیت، فلسفہ منطق وغیرہ۔
    5۔ علم حرام :
    وہ علوم جو اسلام کی تعلیمات سے روکتا ہو اور سراسر نقصان کا باعث ہو۔ اس سے کچھ فائدہ نہ ہو مثلاً جادو، مسمر یزم فلسفہ قدیمہ، سحر ٹونے ٹوٹے وغیرہ۔
    ب۔ ۔ ۔ ۔ اقسام علم بلحاظ ملکیت :
    1۔ ۔ ۔ ۔ علم ذاتی :

    علم ذاتی کے بارے میں آپ کا ارشاد سنیئے :

    “ علم ذاتی ( وہ ہے جو ) اللہ عزوجل سے خاص ہے اس کے غیر کے لئے محال جو اس میں سے کوئی چیز اگر وہ ایک ذرہ سے کم تر سے کم تر، غیر خدا کیلئے مانے وہ یقیناً کافر و مشرک ہے۔ “

    2۔ ۔ ۔ ۔ علم عطائی :

    اللہ تعالٰی کی طرف سے جو علم اس کی مخلوق کو عطا کیا جاتا ہے وہ عطائی علم ہے، فرماتے ہیں:

    “ اجماع ہے کہ اس فضل جلیل میں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حصہ تمام انبیاء، تمام جہانوں سے اتم و اعظم ہے۔ اللہ کی عطاء سے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ ہی جانتا ہے “

    ج ۔ ۔ ۔ ۔ بلحاظ فائدہ و ضرر اقسام علم :

    1۔ ۔ ۔ ۔ علم شرعیہ :

    وہ علم جو انبیاء کرام سے مستفاد ہو اور عقل انسانی کسی رسائی وہاں تک نہ ہو سکتی ہو۔ یہ علم قرآن و سنت کی تفہیم کے لئےمدد گار ثابت ہو۔

    2- - - - علم غیر شرعیہ:

    ایسا علم جس کی تحصیل و تعلم قرآن و حدیث نے حرام کر دیا ہو اور جس سے خلاف شرع امور تعلیم کئے جائیں۔

    د- - - - اقسام علم بلحاظ ذریعہ علم :

    2- - - - علم عقلیہ :

    وہ علم جو عقل کی مدد سے حاصل کیا جائے مثلاً منطق، فلسفہ ، طب وغیرہ

    3- - - - علم نقلیہ :

    ایسا علم جس میں عقل کو کوئی دسترس نہیں جو وحی نبوت سے منقول ہے جس کو آئندہ ہو بہو نقل کے ذریعے حاصل کیا جائے مثلاً قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ۔

    ر ۔ ۔ ۔ ۔ نفع و نقصان کے لحاظ سے علم کی اقسام :

    نفع و نقصان کے لحاظ سے بھی علم کو دو صحوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

    1- - - - علم نافع :

    ایسا علم جو شریعت کے مطابق زندگی کو بہتر طور پر گزارنے کے قابل بنائے نیز جس میں فقاھت ( سمجھ بوجھ خصوصاً دینی امور کے بارے میں ) ہو۔ آپ فرماتے ہیں۔

    “ علم نافع وہ ہے جس میں فقاھت ہو “

    2- - - - علم غیر نافع :

    وہ علم جو نہ تو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے میں کام آئے اور نہ ہی اس سے دین کے بارے میں سمجھ بوجھ ہو۔

    س- - - - اقسام علم بلحاظ حقیقت علم:

    1- علم مقصودہ :

    وہ علم جس کا حصول مقصد حیات ہو، قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر وغیرہ مقصودہ کے زمرے میں آتے ہیں۔

    2- علم آلیہ :

    وہ علم جو علم مقصودہ کے حصول میں معاون ثابت ہو مثلاً زبان، لغت، معانی وغیرہ۔ علم آلیہ قرآن و حدیث کی تفہیم میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔

    ش - - - - نظریہ و کسب کے لحاظ سے علم کی اقسام :

    1- نظری علم :

    وہ علم جس کا تعلق محض عقل، دل، دماغ اور فکر سے ہوتا ہے۔ علم العقائد، علم الاکلام وغیرہ نظری علم ہیں۔

    2- فنی علم :

    وہ علم جو کسی پیشہ کے اپنانے میں اور ذریعہ معاش بنانے میں ممدد معاون ہو۔ طبی، صنعتی ، کاروباری علوم اسی کے زمرے میں آتے ہیں۔

    مولانا احمد رضا خاں نے نہایت واضح، جامع اور ٹھوس استدلال پر مبنی تصور علم، ذرائع علم اور اقسام پیش کی ہیں آپ نے علم کے وسیع ترین موضوع کو جس انداز میں مختلف زاویوں، مختلف پہلوؤں سے الگ الگ اقسام کے میں پیش کیا ہے اس سے فلسفہ ء علم التعلیم کے اساتذہ و طلبہ کیلئے تصور علم کی تفہیم نہایت آسان اور خوب آشکار ہو گئی ہے۔

  11. #11
    Student sudes_102's Avatar
    Join Date
    Jul 2009
    Location
    Islamabad
    Posts
    1,521

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    Pochtay hai Yeh Ahmed Raza Kon Hai
    Koi Batlay Humey Kai Hum Batlay Kiya
    ہم نے اوپر حلوہ حضرت کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا، ایک نظر ڈال لیجیے
    توحید ڈاٹ کام - کتاب و سنت کی پکار
    http://www.tohed.com/

  12. #12
    iTT Student
    Join Date
    Nov 2010
    Location
    Karachi/Pakistan
    Posts
    96

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    in Dalil Ki Zaroorat ap ko hogi mujhe in ki hajat nai

    wa rah munkir khud mukhlifat karey tou yeh touheed aur hum haqeeqat e touheed byan karey tou ikhtalaf

  13. #13
    iTT Student
    Join Date
    Nov 2010
    Location
    Karachi/Pakistan
    Posts
    96

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    Wasey bi bhas ko koi fiada nai mai tum sai baat nai kar raha na tumhe comments kiya hai
    lagta hai dosro kai mamlay mai taang aranay ki ap ki purani adaat hai Allah Pak ap ko hidayat at karey

    Quote Originally Posted by sudes_102 View Post
    ہم نے اوپر حلوہ حضرت کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا، ایک نظر ڈال لیجیے

  14. #14
    Student sudes_102's Avatar
    Join Date
    Jul 2009
    Location
    Islamabad
    Posts
    1,521

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    بحث کا شوق تو مجھے بھی نہیں ہے اور نہ ہی میرے پاس اتنا فضول وقت ہوتا ہے البتہ کسی تھریڈ پر تبصرہ کرنا فورم کے تمام اراکین کا حق ہے، تھریڈ اچھا اور مفید ہو گا تو یقینن سب تعریف کریں گے لیکن اگر چودھویں صدی کے کسی رافضی شعیہ کے خود ساختہ مناقب و فضائل بیان کئے جائیں گے تو ایسے ہی رپلائے دیکھنے کو ملیں گے
    توحید ڈاٹ کام - کتاب و سنت کی پکار
    http://www.tohed.com/

  15. #15
    *I am Banned*
    Join Date
    Apr 2009
    Posts
    916

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    wessy sudes bahey ke bat theek he is ko oppen forum per transfer kiay jaye..
    so moved to oppen forum.. kiuoon ke me ne bhi bhut kuch kahna he ala hajrat per magar oppen forum per

  16. #16
    Moderator lovelyalltime's Avatar
    Join Date
    Jun 2008
    Posts
    3,630

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    ...
    Attached Images Attached Images
    • File Type: jpg 1.jpg (160.5 KB, 26 views)
    • File Type: jpg 2.jpg (174.1 KB, 26 views)
    • File Type: jpg 3.jpg (166.4 KB, 26 views)
    • File Type: jpg 4.jpg (111.7 KB, 26 views)

  17. #17
    Moderator lovelyalltime's Avatar
    Join Date
    Jun 2008
    Posts
    3,630

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    .......
    Attached Images Attached Images
    • File Type: jpg 1.jpg (130.6 KB, 25 views)
    • File Type: jpg 2.jpg (163.0 KB, 27 views)
    • File Type: jpg 3.jpg (161.7 KB, 27 views)
    • File Type: jpg 4.jpg (157.6 KB, 26 views)
    • File Type: jpg 5.jpg (154.2 KB, 27 views)
    • File Type: jpg 6.jpg (85.4 KB, 27 views)

  18. #18
    Moderator lovelyalltime's Avatar
    Join Date
    Jun 2008
    Posts
    3,630

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    رضا ورائٹی ہاؤس لاہور کی طرف سے ایک کارڈ شائع کیا گیا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی 6 عدد تصاویر ہیں ، کیا یہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی تصاویر ہیں ، ان کے نیچے کچھ فضائل درج کئے گئے ہیں ، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ، ان تصاویر کے اوپر اور نیچے ” صلی اللہ علیہ وسلم “ کے الفاظ درج ہیں ، کیا یہ درود کی بے ادبی اور گستاخی نہیں ہے ، کیا ایسے کارڈ پر کوئی دعوت نامہ بنوا کر تقسیم کرنا اور اس کارڈ کو عام کرنا درست ہے ، ایک عالم دین نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے اور وہ اسے کار ثواب خیال کرتے ہیں ، قرآن و حدیث کے مطابق اس کی حیثیت واضح کریں ۔ ( محمد یونس حیدری ۔ بیگم کوٹ لاہور )

    امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :
    ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ، عصا ، پیالہ ، انگوٹھی اور ان تمام چیزوں کا بیان جنہیں آپ کے بعد آپ کے خلفاءنے استعمال کیا لیکن ان کی تقسیم منقول نہیں ، اسی طرح آپ کے موئے مبارک ، نعلین اور برتنوں کا حال ہے جن سے آپ کی وفات کے بعد صحابہ اور غیر صحابہ برکت حاصل کرتے رہے ہیں ۔ “ ( کتاب فرض الخمس باب نمبر5 )
    اس کے بعد آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے بالوں کے بغیر چمڑے کی دو پرانی جوتیاں پیش کیں جن پر دو پٹیاں تھیں پھر فرمایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش مبارک ہیں ۔ ( صحیح بخاری ، فرض الخمس : 3107 )
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جوتے کی بناوٹ موجودہ دور کی ہوائی چپل سے ملتی جلتی ہے اس میں چمڑے کا ایک ٹکڑا انگلیوں کے درمیان ہوتا تھا ، اس کا ایک سرا جوتی کے تلے میں اور دوسرا سرا زمام سے بندھا ہوتا تھا ، اس زمام کو قبال بھی کہتے ہیں ، ایک جوتے میں دو پٹیاں ( قبال ) ہوتیں اور ہر قبال چمڑے کے دو تسموں پر مشتمل تھا چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے کی دو پٹیاں تھیں جن کے تسمے دہرے ہوتے تھے ۔ “ ( ابن ماجہ ، اللباس : 3614 )
    اس قسم کے جوتے میں پاؤں کا اکثر حصہ کھلا رہتا ہے چنانچہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں یا جرابوں پر مسح کرتے وقت اپنے پاؤں جوتوں سے نہیں نکالتے تھے بلکہ جوتوں سمیت مسح کر لیتے تھے ۔ ( سنن ابن ماجہ : الطہارہ : 559 ) بلکہ جوتے اتارے بغیر پاؤں بھی دھو لیتے تھے ۔ ( صحیح بخاری ، الوضوء: 166 )
    ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر آپ کا جوتا ہمارے ہاں ہوائی چپل کی طرح ہوتا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نبوت 23 سال پر محیط ہے ، اس دوران آپ نے کئی جوتے استعمال کئے ہوں گے چنانچہ احادیث میں مختلف جوتوں کی تفصیل ملتی ہے لیکن جسے تاریخی حیثیت حاصل ہے وہ یہی ہے جو ہوائی چپل کی طرح تھا چنانچہ حضرت قتادہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعل مبارک کیسے تھے تو انہوں نے ایک پرانا جوتا نکال کر دکھایا جس کے اوپر دو پٹیاں تھیں اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جوتے ہیں ۔ ( صحیح بخاری ، اللباس : 5858 ) بعض روایات میں ہے کہ وہ گائے کے چمڑے کے تھے اور انہیں پیوند لگا ہوا تھا ۔ ( مسند امام احمد ص 6ج 5 ) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوران نماز اتار دیا ، سلام پھیرنے کے بعد فرمایا کہ مجھے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دوران نماز بتایا کہ انہیں گندگی لگی ہوئی ہے لہٰذا میں نے انہیں اتار دیا ۔ ( مستدرک حاکم ص 260 ج 1 ) بہرحال یہ نعلین سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں اور انہیں بطور وراثت تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ ان کے پاس ہی رہنے دیا گیا ، حضرت انس رضی اللہ عنہ عمر کے آخری حصہ میں دمشق چلے گئے تھے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب پاپوش مبارک نویں ہجری کے آغاز میں فتنہ تیمور لنگ کے وقت ضائع ہوگئیں ، احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی ذاتی اشیاءبہت کم تعداد میں موجود تھیں ، امام بخاری نے اپنے عنوان میں جن ذاتی اشیاءکا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں زرہ ، عصا ، تلوار ، پیالہ ، انگوٹھی ، موئے مبارک ، نعلین اور چند ایک برتن ، پھر جو احادیث اس عنوان کے تحت ذکر کی ہیں ان میں صرف پانچ چیزوں کا ذکر ہے پہلی میں انگوٹھی ، دوسری میں نعلین ، تیسری میں چادر چوتھی میں پیالہ پانچویں میں تلوار ، باقی اشیاءیعنی زرہ ، موئے مبارک ، چھڑی اور عصا کے متعلق دوسرے مقامات پر احادیث ذکر کی ہیں ، ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام استعمال کردہ ذاتی اشیاءاور آثار شریفہ بابرکت ہیں اور ان سے برکت حاصل کرنا شرعاً جائز ہے
    لیکن اس تبرک کیلئے دو شرائط ہیں :

    1 تبرک لینے والا شرعی عقیدہ اور اچھے کردار کا حامل ہو ، جو شخص عمل اور عقیدہ کے اعتبار سے اچھا مسلمان نہیں اسے اللہ تعالیٰ اس قسم کے تبرکات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے ۔
    2 جو شخص تبرک حاصل کرنا چاہتا ہو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی آثار میں سے کوئی شئی حاصل ہو اور پھر وہ اسے استعمال بھی کرے محض دیکھ لینے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ، لیکن ہم یہ بات بھی علی وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے آثار شریفہ اور تبرکات معدوم ہو گئے یا جنگوں اور فتنوں کی نذر ہو کر ضائع ہو گئے جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے ۔
    ( الف ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا رکھی تھی جسے آپ پہننے تھے ، آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے استعمال کیا ، ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس رہی بالآخر بئر اریس میں گر گئی اور تلاش بسیار کے باوجود وہ نہ مل سکی ۔ ( صحیح بخاری ، اللباس : 5879 )
    ( ب ) عباسی دور کے آخر میں جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رداءمبارک اور چھڑی جس سے آپ کھجلی کیا کرتے تھے ، ہنگاموں میں ضائع ہوگئیں ، یہ سن 656 کے واقعات ہیں ۔
    ( ج ) دمشق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب پاپوش مبارک بھی نویں ہجری کے آغاز میں فتنہ تیمور لنگ کے وقت ضائع ہو گئی جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے ۔
    ( د ) آپ کے آثار شریفہ کے فقدان کی ایک وجہ یہ تھی کہ جس خوش قسمت انسان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نشانی تھی اس نے وصیت کر دی کہ اسے قبر میں اس کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عورت نے اپنے ہاتھ سے چادر تیار کی اور آپ کو بطور تحفہ پیش کی ۔ آپ نے اسے قبول کرتے ہوئے زیب تن فرمایا ، لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس خواہش کے پیش نظر کہ وہ آپ کا کفن ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چادر مانگ لی ۔ بالآخر وہ چادر ان کا کفن بنی ۔ ( صحیح بخاری ، الجنائز : 1277 ) اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قمیص رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو پہنایا گیا ، اسے بھی بطور کفن قبر میں دفن کر دیا گیا ۔ ( صحیح بخاری ، الجنائز : 1270 )
    حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس چند موئے مبارک تھے ، آپ نے ان کے متعلق وصیت کر دی تھی کہ انہیں قبر میں ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ ( سیر ا¿علام النبلاءص 337 ج11 ) ان حقائق کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں ، بالوں اور نعلین میں سے کچھ باقی نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے بس میں ہے کہ وہ قطعی اور یقینی طور پر یہ ثابت کر سکے کہ فلاں چیز واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال کردہ ہے پھر جب صورت حال یہ ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ دور حاضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی تصاویر کہاں سے برآمد کی گئی ہیں ، یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام استعمال کردہ ذاتی اشیاءبابرکت ہیں اور ان سے برکت حاصل کرنا بہت بڑی خوش قسمتی اور باعث عزت ہے لیکن ان اشیاءکی تصاویر کو اس مقصد کیلئے استعمال کرنا خلاف شرع ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ اکثر دوکانوں اور بسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین کی تصاویر کے کارڈ لئے پھرتے ہیں اور ان کی اشاعت باعث برکت خیال کرتے ہیں ، پھر ان تصاویر کو اپنے سینہ اور پگڑی پر آویزاں کرتے ہیں ، ان تصاویر کے متعلق لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اسے گھر ، دوکان یا دفتر میں رکھنے سے ہر قسم کی مصیبت اور بلا ٹل جاتی ہے ، تنگ دست کی تنگ دستی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے ۔ یہ سب جذباتی باتیں خلاف شریعت ہیں ، تصویر سے اگر اصل چیز کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے تو پھر گھر میں بیت اللہ کی تصویر رکھ کر اس کا طواف کیا جا سکتا ہے اور وہاں نماز پڑھ کر ایک لاکھ نماز کا ثواب بھی لیا جا سکتا ہے ، حجر اسود کی تصویر رکھ کر اس کا بوسہ لیا جائے تا کہ مکہ مکرمہ جانے کی ضرورت ہی نہ رہے ، ہمیں سوال کے ہمراہ جو کارڈ موصول ہوا ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین مبارکین کے چھ عدد تصاویر ہیں ، اس کا عنوان یہ ہے ۔ ” نقش نعلین مبارک سلطان دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم ۔ “
    پھر اس نقش نعل کے متعلق لکھا ہے کہ اسے اپنے پاس رکھنے والے کو مندرجہ ذیل برکات حاصل ہوں گی ۔
    1 سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوگی ۔
    2 اس کو اپنے پاس رکھنے سے شیطان کے شر سے حفاظت ہو گی ۔
    3 اس کو آنکھوں پر رکھنے سے امراض چشم سے نجات حاصل ہوگی ۔
    4 گنبد خضراءکی حاضری نصیب ہوگی ۔
    5 اس کو اپنے پاس رکھنے سے ظالموں کے ظلم سے نجات حاصل ہوگی ۔
    6 اس کے واسطہ سے دعا مانگی جائے تو پوری ہوگی ۔
    7 ہر قسم کے جادو ٹونے سے حفاظت ہوگی ۔
    8 اس کو اپنے پاس رکھنے سے ہرحاسد کے حسد و نظر بد سے حفاظت ہو گی ۔
    9 جس کشتی میں ہو وہ نہ ڈوبے اور جس گھر میں ہو چوری سے محفوظ ہے ۔
    نوٹ : یہ فضائل اس صورت میں حاصل ہوں گے جب نیت درست اور یقین کامل ہو ۔
    ہمارے نزدیک نقش نعلین کے مذکورہ فضائل و مناقب خودساختہ اور بناوٹی ہیں ، احادیث میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا ، حضرت انس رضی اللہ عنہ جو نعلین کے نگران تھے ، ان سے کچھ بھی منقول نہیں ہے ، بلکہ ہمارے نزدیک یہ تمام نقش ہی جعلی اور بناوٹی ہیں ، خاص طور پر درمیان میں بڑا جوتا جو دور حاضر کی سوفٹی کی شکل پر تیار کیا گیا ہے ، اس کے بناوٹی ہونے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش کی تصویر بنانے میں چنداں حرج نہیں ، اگر کوئی محبت کے پیش نظر ایسا کرتا ہے تو اس کی گنجائش ہے بشرطیکہ پاپوش کی اصلیت اور حقیقت سے واقف ہو ، لیکن اس نقش سے برکت حاصل کرنا اور اسے باعث فضیلت قرار دینا کسی صورت میں بھی صحیح نہیں ہے جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں البتہ اصلی پاپوش مبارک اگر کہیں موجود ہے تو اس میں خیر و برکت کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کوئی کمی نہیں آسکتی جیسا کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے جو انہیں فضل بن ربیع کے کسی لڑکے نے عنایت فرمائے تھے ۔ آپ ان بالوں کو بوسہ دیتے ، آنکھوں پر لگاتے اور پانی میں بھگو کر شفا کے طور پر اس پانی کو نوش کرتے ، جن دنوں آپ پر آزمائش آئی اس وقت وہ آپ کی آستین میں رکھے ہوتے تھے ، بعض لوگوں نے آپ کی آستین سے موئے مبارک نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ ناکام رہے ۔ ( سیر اعلام النبلاءص250ج11 )
    آخر میں ہم اس امر کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے اگرچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ کے آثار شریفہ سے تبرک حاصل کیا اور آپ کے لعاب دھن کو اپنے چہروں اور جسموں پر ملا ۔ آپ نے انہیں منع نہیں فرمایا ایسا کرنا جنگی حالات کے پیش نظر انتہائی ضروری تھا مقصد یہ تھا کہ کفار قریش کو ڈرایا جائے اور ان کے سامنے اس بات کا اظہار کیا جائے کہ مسلمانوں کا اپنے رہبر و راہنما سے تعلق کس قدر مضبوط ہے ، انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر والہانہ عقیدت و محبت ہے وہ آپ کی خدمت میں کس قدر فنا ہیں اور وہ کس کس انداز سے آپ کی تعظیم بجا لاتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے چھپایا جا سکتا ہے کہ اس صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے حکیمانہ انداز میں اور لطیف اسلوب کے ساتھ مسلمانوں کی توجہ اعمال صالحہ کی طرف مبذول کرنے کی کوشش فرمائی جو اس قسم کے تبرکات کو اختیار کرنے سے کہیں بہتر ہیں ، مندرجہ ذیل حدیث اس سلسلہ میں ہماری مکمل راہنمائی کرتی ہے ۔
    ابوقراءسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو فرمایا آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنا شروع کر دیا ، آپ نے دریافت فرمایا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو ، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے پیش نظر ایسا کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے یا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرے تو اسے چاہئے کہ بات کرتے ہوئے سچ بولے ، اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اسے ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرے ۔ ( الاحادیث الصحیحہ : رقم 2998 )
    مختصر یہ کہ ہمارے نزدیک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل تبرک یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں آپ کے ذریعے اللہ کی طرف سے ملا ہے اس پر عمل کیا جائے اور آپ کی صورت و سیرت کی اتباع کی جائے تو اس دنیا و آخرت کی خیر و برکات سے ہم مشرف ہوں گے ،
    اب ہم سوالات کے مختصر جوابات دیتے ہیں ۔
    1 کارڈ پر شائع کردہ تصاویر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاپوش مبارک کی نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے برکت حاصل کرنا جائز ہے ۔
    2 اس میں جو فضائل و مناقب درج کئے گئے ہیں وہ حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہیں ، بلکہ یہ خود ساختہ ہیں ، ان سے عقیدہ کی خرابی لازم آتی ہے ۔
    3 تصاویر کے اوپر نیچے صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لکھا گیا بلکہ ” سلطان دوجہاں “ کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا گیا ہے ، کوئی بھی صاحب شعور جوتوں کے اوپر یا نیچے صلی اللہ علیہ وسلم کی جسارت نہیں کر سکتا ۔
    4 ایسے کارڈ پر دعوت نامہ بنا کر تقسیم کرنا درست نہیں ہے اور نہ ہی اسے عام کرنا جائز ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بدعات کی اشاعت ہوتی ہے ۔
    5 جس عالم دین نے ثواب سمجھ کر اس کی اشاعت کی ہے ، اس کا یہ اقدام انتہائی محل نظر ہے ۔ واللہ اعلم

  19. #19
    Moderator lovelyalltime's Avatar
    Join Date
    Jun 2008
    Posts
    3,630

    Re: علم کا تصور ، ذرائع اور اقسام مولانااحمد ر

    http://www.ircpk.com/album/1-Barelviat,%20apni%20Kitabon%20ke%20Ainay%20main/

Similar Threads

  1. Replies: 137
    Last Post: 11th September 2011, 01:49 PM
  2. Replies: 4
    Last Post: 26th March 2011, 03:19 AM
  3. Replies: 3
    Last Post: 9th February 2011, 02:53 AM
  4. اصحاب کہف کے نام اور دوسری معلومات
    By Mohammed Usman in forum Zaarori Maloomat
    Replies: 0
    Last Post: 4th August 2010, 08:39 PM
  5. Replies: 1
    Last Post: 1st May 2009, 06:52 PM

Tags for this Thread

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •