انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نِرالے ہیں
یہ عاشِق کون سی بستی کے یاربّ رہنے والے ہیں
علاجِ درد میں بھی درد کی لذّت پہ مرتا ہوں
جو تھے چھالوں میں کانٹے، نوکِ سوزن سے نکالے ہیں
پھلا پھولا رہے یا ربّ ! چمن میری اُمیدوں *کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بُوٹے میں نے پالے ہیں
رُلاتی ہے مجھے خوابوں میں خاموشی ستاروں کی
نِرالا عشق ہے میرا، نِرالے میرے نالے ہیں
نہ پُوچھو مجھ سے لذّت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پُھونک ڈالے ہیں
نہیں بیگانگی اچھی رفیقِ راہِ منزل سے
ٹھہر جا اے شرر، ہم بھی تو آخر مِٹنے والے ہیں
اُمیدِ حُور نے سب کچھ سِکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں
میرے اشعار اے اقبال! کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
میرے ٹُوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
Bookmarks