زمین ان کی ہر اک بات مان لیتی ہے
کہاں سے سیکھ کے آتے ہیں گفتگو دریا
یہ کس کی یاد میں اشکوں کے بند ٹوٹے ہیں
یہ کس کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں کو بکو دریا
جوان ہوتے ہی سب گھر سے بھاگ جاتے ہیں
کبھی نہ چھوڑیں گے لگتا ہے اپنی خو دریا
سمندروں سے بغاوت کا شوق ہے لیکن
مقابلہ پہ نہیں آتے دو بدو دریا
وہ جس کو دور کہیں آسماں میں بھول آئے
اب اس کی خاک میں کرتے ہیں جستجو دریا
جو میں نے خوابوں کی وادی میں بہتے دیکھا تھا
نہیں ہے کوئی یہاں ویسا ہو بہو دریا
کہیں پہ خاک میں پوشیدہ اک خزانہ ہے
اُسی کی کھوج میں پھرتے ہیں چار سو دریا
سفر میں رہنے سے آداب سیکھ جاتے ہیں
وگر نہ ہوتے ہیں حد درجہ تند خو دریا
گھروں سے حلف اٹھاتے ہوئے نکلتے ہیں
نہیں کریں گے کبھی گھر کی آرزو دریا
خود اپنے آپ سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے
بہت سے ایسے بھی دیکھے ہیں تند خو دریا
تمام عمر یہ اپنوں سے دور رہتے ہیں
بس اتفاق سے ملتے ہیں روبرو دریا
یہ کس کے خون کا لیتے ہیں انتقام اس سے
زمیں کا پیتے ہیں ہر وقت کیوں لہو دریا
نہ جانے کون ہیں آئے ہیں کس کی شادی میں
یہ نغمہ بار پرندے یہ خوش گلو دریا
اسی لئے تو یہ سب میکشوں سے بہتر ہیں
شراب پیتے ہیں بے ساغر و سبو دریا
۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔
Bookmarks