بڑے بڑوں کو یہاں سے اکھاڑ ڈالا ہے
اگرچہ یوں تو نحیف و نزار ہے سورج
کہیں اٹھا کے اسے اب سنبھال کر رکھو
گئے دنوں کی کوئی یاد گار ہے سورج
خلا میں تاکہ وہ ہارے نہ حوصلہ اپنا
زمیں کے نام کسی کی پکار ہے سورج
کہیں پہ بیٹھ کے آرام کیوں نہیں کرتا
ہوا کے گھوڑے پہ ہر دم سوار ہے سورج
نیا ستارہ کوئی آسماں سے ٹوٹا ہے
کئی دنوں سے بہت سوگوار ہے سورج
ہمیشہ ڈرتے ہوئے اس سے ملنے جاتا ہوں
نہ جانے نور ہے تیرا کہ نار ہے سورج
۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔