کیسے بتائیں قیامت سے گزر آئے ہیں
روز ایک نئی صعوبت سے گزر آئے ہیں
ہم سمجھتے رہے وہ بھی میرے دیوانے ہیں
ایسی اور فضول عبادت سے گزر آئے ہیں
ہم سے دیوانے بھی چاہت کی گلی میں ساحل
سبھی کانٹوں کی مسافت سے گزر آئے ہیں
ہم سے نہ حال محبت کی خوشی کا پوچھو!!!
ہم بھی اشکوں کی محبت سے گزر آئے ہیں
تیری چاہت میں نہ کس کس کو سنا ہیے ہم نے
سبھی اپنوں کی رقابت سے گزر آئے ہیں
تم بھی فریب یوں دوگے کہاں سوچا میں نے
چلو ہم بھی اس عزیمت سے گزر آئے ہیں
Bookmarks