منظر تھا اک اجاڑ نگاہوں کے سامنے
کیا کیا نہ رنگ بھر دئیے افسوس شام نے
اس حادثے کی نخوتِ ساقی کو کیا خبر
بادہ پیا کہ زہر پیا تشنہ کام نے
چہرے سے اجنبی تھا وہ میرے لئے مگر
سب راز اس کے کہہ دئے طرز خرام نے
نکلا نہیں ہوں آج بھی اپنے حصار سے
حدِّ نگاہ آج بھی ہے میرے سامنے
تھے حادثوں کے وار تو کاری مگر مجھے
مرنے نہیں دیا خلشِ انتقام نے
اک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیبؔ
دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے
Bookmarks