اس نے اقرار کیا ہے مگر انکار کے ساتھ
سلسلہ جڑ تو گیا حُسنِ طرح دار کے ساتھ
صاحبِ دل ہیں‘ کوئی رُت ہو‘ بھرم رکھتے ہیں
اپنا رشتہ ہے ازل سے رَسَن و دار کے ساتھ
اب کسے تن پہ سجائے گا کڑی دھوپ میں پیڑ
ٹوٹ کر پتے لگے بیٹھے ہیں دیوار کے ساتھ
اِک ذرا دیر ٹھہر جا بُتِ خاموش مزاج!
نطق زنجیر تو کر لوں لبِ اظہار کے ساتھ
عمر بھر کس نے اصولوں کو ترازو رکھا
کون رُسوا ہوا اس شہر میں کردار کے ساتھ
ایک لمحے کو کھلا تھا درِِ مقتل شب کا
رغبتِ خاص ہے ہر صبح کو تلوار کے ساتھ
کس نے ترتیب دیا ذروں سے عالم کا نظام
مہر و مہ کس نے نمائش کیے پرکار کے ساتھ
آنکھ پتھرا گئی تکتے ہوئے رستہ لیکن
روح کا ربط ہے قائم رُخِ دلدار کے ساتھ
میرا خالق ہے مرے فن کی ضمانت احمد
حرف ترتیب سے چنتا نہیں معیار کے ساتھ
Bookmarks