بس آنکھ لایا ہوں اور وُہ بھی تَر نہیں لایا
by
, 13th January 2012 at 10:57 AM (942 Views)
بس آنکھ لایا ہوں اور وُہ بھی تَر نہیں لایا
حوالہ دھیان کا مَیں مُعتبر نہیں لایا
سوائے اسکے تعارف کوئی نہیں میرا
میں وُہ پرندہ ہوں جو اپنے پر نہیں لایا
نجانے کس کو ضرورت پڑے اندھیرے میں
چراغ راہ میں دیکھا تھا گھر نہیں لایا
مُجھے اکیلا حدِ وقت سے گُزرنا ہے
میں اپنے ساتھ کوئی ہم سفر نہیں لایا
گُلِ سیاہ کھِلا ہے تو رو پڑا ہوں میں
کہ روشنی کا شجر بھی ثمر نہیں لایا
شُمار کر ابھی چنگاریاں مرے ناقد
کہ مَیں الاؤ اُٹھا کے اِدھر نہیں لایا
مری روانی کی اب خیر ہو مرے مالک
ستارہ ٹُوٹ کے اچھی خبر نہیں لایا!
بھنور نکال کے لایا ہوں میں کنارے پر
مُجھے نکال کے کوئی بھنور نہیں لایا