Assalam o Alaikum!
This Coloum is Taken from "BBCURDU" Network.
I dont like Media but Read this for info.
کیا افغانستان میں تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی؟
ہیو ڈیویز
لیکچرر، ڈیفنس سٹڈیز، کنگز کالج لندن
ماضی میں برطانوی فوج نے ترجیح ’پرتشدد‘ طریقہ کار ہی کو دی
افغانستان کے ماضی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں برطانوی فوجوں کی مداخلت کی زیادہ اچھی تاریخ نہیں ہے۔ ماضی کے تجربات سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ برطانوی فوجیں پھر سے افغانستان میں ناکام ہوں گی۔
تاہم افغانستان میں برطانوی فوجوں کی لڑی گئی پہلی تین جنگوں کا موازنہ موجودہ تنازع سے کرنا زیادہ مناسب تو نہیں ہے تاہم برطانیہ کو افغانستان میں اپنی تاریخ سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ 1839 سے لے کر 1919 کے دوران برطانوی فوج نے افغانستان میں تین جنگیں لڑی ہیں اور تینوں ہی میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
انیسویں صدی میں لڑی گئی جنگوں کی وجوہات افغانستان کے آج کے تنازع سے مختلف ہیں۔ تاہم اگر تنازعات کی مشترکہ باتوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں برطانوی فوج کی کامیابی کی امید کم ہی ہے۔
پہلی افغان۔برطانیہ جنگ اس وقت چھڑی تھی جب برطانوی فوج نے اس ڈر سے افغانستان پر حملہ کیا تھا کہ روسی فوجیں مرکزی ایشیا تک نہ پہنچ جائیں۔ تاہم 16000 فوجیوں پر مشتمل برطانوی فوج کو 1841 میں افغانستان سے نکال دیا گیا۔
1878 میں برطانیہ نے افغانستان پر دوسرا حملہ کیا۔ اس حملے کا مقصد بھی وہی تھا جو پہلے حملے کا تھا۔ 27 جولائی 1880 کو مائی واند میں برطانوی فوج کو شکست فاش کا سامنا رہا۔
تاہم آج کے افغانستان کے برعکس ماضی میں برطانیہ کوئی بھی سیاسی معاہدہ نہیں کرسکا۔
دونوں ممالک کے درمیان تیسری جنگ 1919 میں اس وقت چھڑی جب افغانستان نے برطانوی حکمرانی سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔
ماضی میں برطانیہ کے پاس نہ تو اتنی فوجی صلاحیت تھی اور نہ ہی سیاسی طور پر جنگ جیتے کا مضبوط ارادہ۔ 1919 کے بعد سے آج تک افغانستان میں کئی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ برطانوی فوجوں کے دنیا بھر میں جنگ لڑنے کا تجربہ بھی زیادہ ہوچکا ہے اور فوجی صلاحیتیں بھی جدید سے جدید تر ہوتی جارہی ہیں۔
1841 کی جنگ کے دوران، اگرچہ برطانوی فوج افغان ثقافت جاننے کی اہمیت سے واقف ہوچکی تھی تاہم انہوں نے معاملے کا ’ ثقافتی حل‘ نکالنا اپنے مقام کے مترادف نہیں سمجھا۔ برطانوی فوج نے ترجیح ’پرتشدد‘ طریقہ کار ہی کو دی۔
اس مرتبہ برطانوی فوج افغانستان کی ثقافت اور روایات جاننے کی اہمیت سے بھی واقف ہوچکی ہے۔ 1839 کی افغان برطانیہ جنگ کے دوران برطانوی فوج افغان عوام کو نیا حکمران تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کرسکی تھی کیونکہ شاہ شجاع کا تعلق دوسرے قبیلے سے تھا۔ شاہ شجاع کے دور حکمرانی میں افغانستان سیاسی طور پر تقسیم ہوگیا جس کا نتیجہ پرتشدد بغاوت کی صورت میں سامنے آیا۔ اس وقت برطانوی فوج نے تشدد کا جواب تشدد سے دیا۔ تاہم یہ مسئلے کا حل ثابت نہیں ہوسکا۔ اس وقت فوج نے یہ نہیں جانا کہ اگر افعان قبیلوں کی کچھ شرائط مان لی جاتیں تو انہیں بہت سی چیزوں پر آمادہ کیا جاسکتا تھا۔
تاہم آج کے اور ماضی کے افعانستان میں ایسی سوچ رکھنے والوں کی کچھ تعداد مشترکہ ہے جو مغرب سے شدید نفرت کرتے ہیں اور انہیں پرتشدد کارروائی کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے۔ تاہم پرتشدد کارروائی سے افغان عوام میں برطانیہ کی مخالفت میں اضافہ ہوا۔
1841 کی جنگ کے دوران، اگرچہ برطانوی فوج افغان ثقافت جاننے کی اہمیت سے واقف ہوچکی تھی تاہم انہوں نے معاملے کا ’ ثقافتی حل‘ نکالنا اپنے مقام کے مترادف نہیں سمجھا۔ برطانوی فوج نے ترجیح ’پرتشدد‘ طریقہ کار ہی کو دی۔
آج افغانستان میں موجود برطانوی فوج وہاں کی ثقافت اور روایات جاننے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے اور کئی معاملات کے حل کے لیے ’غیر فوجی‘ طریقہ کار اپنایا جارہا ہے تاہم طالبان کی موجودگی میں مکمل طور پر غیر فوجی طریقہ اپنانا بھی فوج کے لیے ناممکن ہے۔
اب یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا کہ ثقافت سے واقفیت برطانوی فوج کی کامیابی کی ضمانت ہے تاہم ماضی کے تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ ثقافت سے عدم واقفیت فوج کی ناکامی کا باعث ضرور ہے۔
Bookmarks