سری لنکا کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی جس بس پر سوار تھے اس بس کے ڈرائیور خلیل احمد کا کہنا ہے کہ گولی باری سے وہ ڈر گئے تھے لیکن پھر ہمت سے کام لیا اور بس سٹیڈیم کے محفوظ مقام پر پہنچا دی۔
لاہور میں ڈرائیور خلیل احمد نے بی بی سی کی نمائندہ منا رانا کو بتایا کہ وہ روزانہ صبح سوا آٹھ بجے پی سی سے نکلتے لیکن آج صبح جیسے ہی وہ پی سی سےگلبرگ پہنچے گول چکر کے پاس گاڑی کی سپیڈ ٹرن لیتے ہوئے تھوڑی کم ہو گئی۔
اس کے ساتھ ہی سامنے سے ایک کار سے فائرنگ شروع ہوگئی۔’ابھی ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہاں سے ایک اور بندا نکلا اس نے بھی فائرنگ شروع کر دی۔ پھر پیچھے سے ایک راکٹ آیا جو بس کو مس کرتا ہوا سیدھا زمین پر جا لگا اور دھماکے کی آواز سنائی دی۔‘
اس دوران سامنے سے ایک اور آدمی نکلا جس نے ہاتھ میں گرینیّڈ پکڑا ہوا تھا جو اس نے گاڑی کی طرف اچھالا لیکن وہ نیچے سے نکل گیا۔ ان افراد کی عمریں بیس سے پچیس سال کے درمیان تھیں۔ اسی بھگدڑ میں کمانڈو والے سائیڈ پر ہو گئے۔
خلیل نے مزید بتایا کہ اس وقت کچھ دیر کے لیے تو وہ بالکل ساکت ہو گئے۔ ’ذہن میں آیا کہ گیٹ کھول کر گاڑی سے بھاگ جاؤں پھر سوچا کہ بھاگنا کدھر ہے باہر بھی توگولیاں چل رہی ہیں۔ اللہ مالک ہے۔ اس وقت تک فائر صرف دو لوگوں کو لگے تھے۔‘
’اسی شش و پنج میں تھا کہ سری لنکا کی ٹیم کے پاکستانی انچارج ڈاکٹر مقدم کی آواز آئی کہ خلیل گاڑی بھگاؤ۔ تو بس پھر میں نے سپیڈ کی پروا کیے بغیر گاڑی بھگائی اور سیدھا سٹیڈیم کے اندر چلا آیا۔
‘
Bookmarks