ہرحاجی کو سات سو ریال دیں: سپریم کورٹ
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے حج انتظامات میں بدعنوانی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی تھی
سپریم کورٹ نےحج انتظامات میں مبینہ بدعنوانی کے سکینڈل حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر چھبیس ہزار حاجیوں کو سات سو ریال فی کس کے حساب سے ادا کریں۔
عدالت نے اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کے سربراہ کو حکم دیا ہے کہ وہ وزیر داخلہ رحمان ملک کا بیان ریکارڈ کرکے مقدمے میں شامل کریں۔
وزیر داخلہ پر الزام ہے کہ اُنہوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے سابق ڈائریکٹر حج راؤ شکیل اور اس سکینڈل کے ایک اور مرکزی کردار احمد فیض کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ ملزم راؤ شکیل نے بیس کروڑ روپے کی بدعنوانی کی ہے۔
حج انتظامات میں بدعنوانی کے مقدمے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کی ٹیم نے اس سلسلے میں سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی کا بیان بھی قلمبند کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے حج انتظامات میں بدعنوانی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی تھی۔
عدالت نے ایف آئی اے کی جانب سے اس مقدمے کی حوالے سے کی جانے والی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں کیوں وہ اس مقدمے کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں لے رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے دو سال کے کنٹریکٹ پر ہیں اس لیے وہ اپنی نوکری بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔
بینچ میں شامل جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے وسیم احمد سے استفسار کیا کہ اُنہوں نے اس مقدمے میں سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سابق وفاقی وزیر اعظم سواتی سمیت دیگر افراد کے بیان ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت ریکارڈ کیے گئے ہیں جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے نفی میں جواب دیا۔
جسٹس خلیل الرحمن رمدے کا کہنا تھا کہ اگر وہ اُن کے تفتیشی معاملات کی نگرانی کر رہے ہوتے تو اس غیر تسلی بخش کارکردگی پر وہ اُنہیں معطل کرکے جیل بھجوا دیتے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں سعودی عرب میں پاکستانی سفیر سمیت دیگر افراد کو کیوں نہیں طلب کیا جاتا۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وسیم احمد اس مقدمے کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حامد سعید کاظمی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ اب تو ایک جماعت وزیر اعظم کی برطرفی کا مطالبہ کر رہی ہےجس پر خلیل الرحمن رمدے کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی معاملہ عدالت کے سامنے نہیں ہے۔
Bookmarks