سنہ انیس سو ستانوے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے اب تک اس قانون کے تحت ملک بھر کی متعلقہ عدالتوں میں اکیاسی ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا جبکہ ایک سو چوراسی افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
تقریباً تیرہ سال سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے نفاذ کے بعد اس ایکٹ کے تحت ملک بھر میں بارہ ہزار سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت سب سے زیادہ مقدمات خیبر پختونخوا اور پنجاب میں درج کیے گئے ہیں جن میں سے ستر فیصد سے زائد مقدمات کا فیصلہ سُنایا جاچکا ہے جبکہ تیس فیصد مقدمات متعلقہ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
جن مجرموں کو ان مقدمات میں موت اور عمر قید کی سزائیں سُنائی گئی ہیں اُن میں سے سبھی مجرموں نے ان فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیلیں دائر کررکھی ہیں جو وہاں پر زیر سماعت ہیں۔
اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کے محکمہ داخلہ سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت ساڑھے چار ہزار سے زائد انسداد دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے تھے جن میں سے چار ہزار سے زائد مقدمات کا فیصلہ سُنایا جاچکا ہے جن میں سے دوہزار چھ سوافراد کو سزا سنائی گئی ہے جبکہ ان مقدمات میں ایک ہزار سے زائد افراد کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا گیا ہے۔ جبکہ باقی مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
جن مقدمات کے فیصلے ہوئے ہیں اُن میں سے پچیس افراد کو موت کی سزا جب کہ ستاون افراد کو عمر قید کی سزا سُنائی گئی ہے۔
صوبہ پنجاب میں گُزشتہ تیرہ سال کے دوران انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت چار ہزار سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سے تین ہزار دو سو سے زائد مقدمات کے فیصلے سُنائے جاچکے ہیں۔ جبکہ باقی ماندہ مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان مقدمات میں دوہزار چھتیس افراد کو مختلف سزائیں سُنائی گئی ہیں جن میں سے انتیس افراد کو موت کی سزا جبکہ ستر افراد کو عمر قید کی سزا سُنائی گئی ہے جبکہ تیرہ سو بائیس افراد کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا گیا۔


سنہ دوہزار چھ کے بعد صوبہ خیبر پختونخواہ اور صوبہ پنجاب میں شدت پسندی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافے کے بعد انسداد دہشت گردی کے مقدمات کے اندراج میں اضافہ ہوا ہے۔
صوبہ سندھ کے محمکہ داخلہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے اب تک تین ہزار کے قریب مقدمات درج کیے گئے جن میں سے دوہزار ایک سو پچاس مقدمات کا فیصلہ ہوچکا ہے اور ان مقدمات میں گیارہ سو ستر سے زائد افراد کو سزائیں سُنائی جاچکی ہیں جبکہ ساڑھے نو سو افراد کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا گیا ہے۔سزا پانے والوں میں سے بائیس افراد کو موت کی سزا جب کہ سینتیس افراد کو عمر قید کی سزا سُنائی گئی۔
سب سے کم مقدمات صوبہ بلوچستان میں درج ہوئے ہیں جن کی تعداد آٹھ سو سے زائد ہے اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد سب سے زیادہ مقدمات سابق ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں درج ہوئے تھے جن کی تعداد چار سو سے زائد ہے۔ ان مقدمات میں سے پانچ افراد کو سزائے موت اور بیس افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ سات سو سے زائد افراد کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا گیا۔
انسداد دہشت گردی کے تحت جن افراد کو سزا سُنائی گئی ہے اُن میں سے زیادہ تر قیدی، بہاولپور، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد،کراچی، پشاور اور مچھ جیلوں میں قید ہیں۔
پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد میں اس ایکٹ کے تحت ایک سو پچیس سے زائد مقدمات درج کیے گئے تھے۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں پہلا مقدمہ چودہ اکتوبر سنہ انیس سو ستانوے میں درج کیا گیا تھا یہ مقدمہ تھانہ بارہ کہو میں درج کیا گیا تھا جس میں پولیس اہلکاروں اور مقامی افراد کے درمیان جھگرا ہوا تھا جس پر پولیس نے ان افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
یہ مقدمہ ابھی تک انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہے تاہم اس مقدمے کا مدعی انسپکٹر راجہ خورشید علی وفات پا چکے ہیں۔اسلام آباد اور اُس کے جُڑواں شہر راولپنڈی میں گُزشتہ پانچ سال کے دوران شدت پسندی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار ہونے والے زیادہ تر افراد عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہوچکے ہیں۔


ان مقدمات میں سابق ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے طیارے پر حملہ، پاکستان فوج کے سرجن جنرل مشتاق بیگ پر خودکش حملہ، میریٹ ہوٹل اور ڈنمارک سفارت خانے پر حملہ، حمزہ کیمپ اور جی ایچ کیو کے علاقے میں فوجی اہلکاروں پر ہونے والے خودکش حملوں کے مقدمات شامل ہیں۔
سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ ابھی تک انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہے جس کا فیصلہ نہیں ہوا۔ سابق وزیر اعظم کے قتل کا مقدمہ ستائیس دسمبر سنہ ہزار سات میں راولپنڈی کے تھانہ سٹی میں درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن پر اب دوبارہ فرد جُرم عائد کی جائے گی۔
اڈیالہ جیل کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت جیل میں صرف بیس ملزمان ایسے ہیں جن کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے ان افراد میں بینظیر بھٹو کے قتل اور ممبئی حملوں کی سازش میں گرفتار ہونے والے ملزمان بھی شامل ہیں۔
وفاق کے زیر انتظام پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے شدت پسندی کے واقعات کا اندارج وہاں پر پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس ہوتا ہے جو بعدازاں اس کی تفصیلات وِزارت قانون کو بھجوا دیتے ہیں۔
ملک بھر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیے گئے مقدمات میں سے پندہ فیصد مقدمات ایسے ہیں جو پولیس حکام نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور کارسرکار میں مداخلت پر درج کیے گئے تھے اور ان میں سے زیادہ ترمقدمات متعلقہ عدالت نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کو ختم کرکے ان کو ضلعی عدالتوں میں بھجوا دیا۔


مبصرین کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے اس ایکٹ کے بےجا استعمال سے اس ایکٹ کی افادیت ختم ہوکر رہ گئی ہے اور تفتیش کے معاملے میں بہتر پیش رفت نہ ہونے پر ان مقدمات میں گرفتار ہونے والے افراد عدم ثبوت کی بنا پر بری ہو رہے ہیں۔
سابق آئی جی سندھ افضل شگری کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کو مزید موثر بنانے کے لیے اس کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں شدت پسندی کے واقعات میں جُرم ثابت کرنے کی تمام تر ذمہ درای استغاثہ پر عائد ہوتی ہے جس کی وجہ سے پولیس پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔